صحت

پاکستان نے کرونا وائرس سے ہونے والی 80 فیصد انفیکشن کے لیے ایران کو موردِ الزام ٹھہرا دیا

از اشفاق یوسفزئی

کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے جزوی لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد 24 مارچ کو پشاور میں فوجی دستے گشت کرتے ہوئے۔ [شہباز بٹ]

کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے جزوی لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد 24 مارچ کو پشاور میں فوجی دستے گشت کرتے ہوئے۔ [شہباز بٹ]

پشاور -- پاکستانی حکام پاکستان میں کووڈ-19 کے پھیلاؤ کا الزامہمسایہ ملک ایران پرپر لگا رہے ہیں۔

ڈان کے مطابق، پاکستان میں ابھی تک کرونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد 1،000 ہو گئی ہے، اور سات اموات ہوئی ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے صحت، ڈاکٹر ظفر مرزا نے منگل (24 مارچ) کے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا، "پاکستان میں کووڈ-19 کے مصدقہ مریضوں کا اسی فیصد ایران سے آیا تھا، جس کے پاس بین الاقوامی سرکاری صحت کی ہنگامی حالت سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے۔"

ایران: کووڈ-19 کی ایک کیاری

ایران، جو کہ پاکستان اور دنیا بھر سے شیعہ زائرین کے لیے ایک مقبول منزل ہے، عالمگیر وباء سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک رہا ہے۔

کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کے دوران فوج اور پولیس کے اہلکار 24 مارچ کو پشاور میں قصہ خوانی بازار میں گشت کرتے ہوئے۔ [شہباز بٹ]

کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جزوی لاک ڈاؤن کے دوران فوج اور پولیس کے اہلکار 24 مارچ کو پشاور میں قصہ خوانی بازار میں گشت کرتے ہوئے۔ [شہباز بٹ]

وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا (کے پی) محمود خان (بائیں) 23 مارچ کو پشاور میں ایران سے واپس لوٹنے والے زائرین کے لیے ایک قرنطینہ مرکز کا دورہ کرتے ہوئے۔ [کے پی حکومت کا دفترِ ابلاغ]

وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا (کے پی) محمود خان (بائیں) 23 مارچ کو پشاور میں ایران سے واپس لوٹنے والے زائرین کے لیے ایک قرنطینہ مرکز کا دورہ کرتے ہوئے۔ [کے پی حکومت کا دفترِ ابلاغ]

اے ایف پی نے بتایا ہے کہ بدھ (25 مارچ) کے روز تہران نے نئے کرونا وائرس سے 143 نئی اموات کا اعلان کیا ہے، جس سے سرکاری اعداد و شمار بڑھ کر 2،077 ہو گئے ہیں۔

پشاور میں محکمۂ صحت کے ایک سابقہ منتظم، ڈاکٹر محمد سہیل نے کہا کہ ہنگامی حالت کے دوران ایران کی نااہلی سامنے آ چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا، "ہم ان لوگوں کا سراغ لگا رہے ہیں جو کووڈ-19 کے مصدقہ مریضوں کے ساتھ رابطے میں رہے تھے۔"

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا (کے پی)، جس نے ایران سے آنے والے 402 زائرین کو قرنطینہ میں رکھا ہے، کے 78 مکینوں میں وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، جس میں 55 زائرین شامل ہیں۔ اس نے کچھ ایسے افراد کے ٹیسٹ کیے ہیں جن کا واپس لوٹنے والے زائرین کے ساتھ رابطہ رہا تھا۔

سہیل نے کہا کہ 350 سے زائد نمونے ابھی بھی ٹیسٹ ہونے کے منتظر ہیں، جن میں سے 80 فیصد سے زائد کے مثبت آنے کی توقع ہے۔

بالکل لاچاری کی حالت میں تھے کیونکہ انہیں ضروری ادویات حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی گئیجب ایرانی حکام نے انہیں فوری طور پر چلے جانے کا حکم دے دیاپشاور کے مقامی طب کے ایک عالم، ڈاکٹر محمد رفیق نے کہا کہ بیشتر زائرین

کے پی میں اس وقت قرنطینہ میں موجود زائرین ایران میں سہولیات کی کمی پر شکوہ کناں ہیں۔ رفیق نے کہا کہ وباء پھوٹ پڑنے کے بعد ایران میں مقامی حکام نے انہیں ادویات خریدنے کے لیے مارکیٹوں میں جانے سے روک دیا اور اس کے بعد ان پر بیماری پھیلانے کا الزام لگا دیا۔

پاکستان نے ایران اور افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدوں پر پہنچنے والے ایک ملین سے زائد افراد کی چھان بین کی ہے مگر اس نے کیسز کی تعداد میں اضافے کےبعد سے اپنی سرحدوں کو بند کر دیا ہے

پاکستانچینی، روسی اور ایرانی حکومتوں کی جانب سے کرونا وائرس کے متعلق پھیلائی جا رہی غلط معلومات.کی بلا سے بھی لڑ رہا ہے۔

انفیکشنز مزید بڑھتی نظر آ رہی ہیں

رفیق نے کہا، "جو لوگ بہت افراتفری کی حالت میں پہنچے تھے ان میں سے بیشتر دیگر [پاکستانیوں] کے ساتھ گھل مل گئے، اور مستقبل قریب میں انفیکشنز بڑھنے جا رہی ہیں۔"

رفیق نے کہا، "پاکستان کو ان تمام افراد کی چھان بین کرنے کے خوفناک کام کا سامنا ہے جو مصدقہ مریضوں کے ساتھ رابطے میں رہے تھے۔"

ان کا مزید کہنا تھا وہ زائرین جو دو ماہ پہلے ایران سے بغیر چھان بین کے واپس آ گئے تھے وہ بھی ایک بڑا خطرہ ہیں۔ "اس تمام بحران کا ماخذ ایران ہے: پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ انہیں ایرانی حکام کے ہاتھوں امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔"

ہنگو کے ایک 24 سالہ مکین، جاوید حسین نے کہا کہ ایران کا کووڈ-19 کے ساتھ نمٹنے کا کام معیاری نہیں رہا ہے، اس کی تیاری کی سطح بہت کمتر تھی۔

انہوں نے سوال کیا، "اگر ایران خود اپنے عوام کا تحفظ نہیں کر سکا، تو ہم اس سے دوسروں کا تحفظ کرنے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟"

ہنگو کے ایک اور مکین جمیل حسین، جن کے بڑے بھائی پشاور میں قرنطینہ میں رکھے گئے افراد میں شامل ہیں، نے کہا کہ درجنوں دیہات میں، ہزاروں مکینوں کو انفیکشن ہونے کا خطرہ ایرانی حکام کی جانب سے ان زائرین کی بدانتظامی کی وجہ سے درپیش ہے جو ایران گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے اہلِ خانہ کو تمام زائرین کی صحت کے متعلق تشویش ہے۔

انہوں نے کہا، "ہم واپس لوٹنے والوں کو 14 دن کے لیے تنہائی میں رکھنے پر حکومت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 4

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ایرانی قیادت شیطان ابلیس کی پیروی کرتی ہے.

جواب

دو ماہ پہلے آنے والوں سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے

جواب

کسی طرح سے انھیں ٹریس کیا جائے۔۔ورنہ ان میں سے کئی دوسرے لوگوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔۔

جواب

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ایران نے پاکستان کو دھوکہ دیا۔

جواب