صحت

پاکستان نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششیں تیز کر دیں

ضیاء الرحمان

27 فروری کو ملتان میں ایک سڑک پر مقامی باشندے COVID-19 کرونا وائرس کے خلاف حفاظتی اقدام کے طور پر چہرے پر ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اس کے پہلے دو کیس سامنے آئے ہیں۔ [عارف علی/اے ایف پی]

27 فروری کو ملتان میں ایک سڑک پر مقامی باشندے COVID-19 کرونا وائرس کے خلاف حفاظتی اقدام کے طور پر چہرے پر ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اس کے پہلے دو کیس سامنے آئے ہیں۔ [عارف علی/اے ایف پی]

کراچی -- پاکستان کے محکمۂ صحت کے حکام ایران سے منسلک دو کیس سامنے آنے کے بعد ملک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔

محکمۂ صحت کے حکام کے مطابق، جمعرات (27 فروری) کے روز دو مریضوں کا COVID-19 ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ ایک کراچی میں جبکہ دوسرا اسلام آباد میں ہے۔

دونوں کی حالت میں استحکام ہے اور انہوں نے ایران کا سفر کیا تھا۔ حکام کے مطابق، ایران سے واپسی پر ان کا بیماری کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے صحت، ڈاکٹر ظفر مرزا نے جمعرات کے روز ایک پریس کانفرنس کے دوران ان لوگوں کو، جنہوں نے حال ہی میں متاثر ممالک -- خصوصاً چین اور ایران-- کا سفر کیا ہے، ترغیب دی ہے کہ وہ وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر کے متعلق جاننے کے لیے، وزارتِ صحت کی ہیلپ لائن، 1166 پر کال کریں۔

کراچی کا ایک پولیس اہلکار اور ایک مقامی باشندہ 27 فروری کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حفاظتی ماسک پہنے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی کا ایک پولیس اہلکار اور ایک مقامی باشندہ 27 فروری کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حفاظتی ماسک پہنے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

27 فروری کو کراچی میں ایک ٹائر مکینک حفاظتی ماسک پہنے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

27 فروری کو کراچی میں ایک ٹائر مکینک حفاظتی ماسک پہنے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

مرزا نے بیماری کی علامات کے حامل افراد کو ترغیب دی ہے کہ وہ ہیلپ لائن پر کال کریں اور ہسپتال میں جائیں۔

دریں اثناء، کراچی کے حکام نے جمعرات کے روز ان زائرین کی تفصیلات جمع کرنے کے لیے شیعہ اکثریتی سولجر بازار کے علاقے کا دورہ کیا جو 6 فروری کے بعد ایران گئے تھے۔ علاقے میں ایسی بہت سی کمپنیاں ہیں جو زائرین کو ایران اور عراق بھیجتی ہیں۔

صوبے کے وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ نے جمعرات کے روز کہا کہ حکومتِ سندھ نے تقریباً 1،500 ایسے باشندوں کی شناخت کی ہے جو گزشتہ دو ہفتوں میں ایران سے واپس لوٹے ہیں، ان تمام کو 15 دن کے لیے باقی لوگوں سے الگ رکھا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی انتظامیہ اگلے 48 گھنٹوں میں صورتحال پر قابو پانے کے لیے پُرامید ہے۔

سندھ اور بلوچستان حکومتوں نے سرکاری ہسپتالوں میں تنہائی وارڈ قائم کر دیئے ہیں اور صوبوں میں صحت کی ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔

بچوں کو محفوظ رکھنے کی احتیاطی تدبیر کے طور پر دونوں حکومتوں نے سکولوں کو کئی روز کے لیے چھٹیاں کر دی ہیں۔

شفافیت کی کمی

عوام کو بالکل درست معلومات فراہم کرنے میں ایرانی حکومت میں شفافیت کی کمی پر بین الاقوامی تشویشوں میں اضافہ ہو رہا ہےکیونکہ ایران میں کرونا وائرس کی بے قابو وباء ہمسایہ ممالک، بشمول پاکستان، کے لیے خطرہ ہے۔

جمعرات (27 فروری) کے روز ایران نے گزشتہ 24 گھنٹے میں نوول کرونا وائرس سے ہونے والی مزید سات اموات کی اطلاع دی تھی، جس سے اموات کی کل تعداد 26 اور متاثرین کی تعداد 245 ہو گئی ہے۔

ایران چین کے بعد وائرس کی وباء کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے، البتہ ایسا لگتا ہے کہ حکام خطرے کو گھٹا کر بیان کر رہے ہیں اور غلط اعدادوشمار کی تشہیر کر رہے ہیں۔

وباء کے بارے میں معلومات باہر بھیجنے کو روکنے کی ایک کوشش میں، ایرانی سائبر پولیس نے بدھ کے روز 24 افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا جن پر آن لائن "افواہیں پھیلانے" کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

حالیہ مہینوں میں ایرانی حکومت کو شفافیت کے حادثات کا ایک سلسلہ درپیش رہا ہے جس نے تہران کی ساکھ کو اس کے اپنے عوام اور بین الاقوامی برادری کی نظروں میں بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

گزشتہ مہینے دسیوں ہزاروں ایرانی نئے سرے سے مشتعل ہو کر سڑکوں پر نکل آئے تھے، مثلاً، جب یہ بات سامنے آئی کہ حکومت اس بارے میں دانستہ چھوٹ بول رہی تھی کہ اس کےاسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں (آئی آر جی سی)نے گزشتہ ماہ یوکرینی ایئرلائن کا طیارہ مار گرایا تھا۔

ایران میں کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کے بعد پاکستان نے 24 فروری کو ایران کے ساتھ اپنی زمینی سرحد کو بند کر دیا تھا اور زائرین کو تافتان بارڈر کراسنگ اور صوبہ بلوچستان میں دیگر پانچ مقامات سے سرحد پار کا سفر کرنے سے روک دیا تھا۔

پاکستان میں دو کیس سامنے آنے کے بعد، پاکسانی ایوی ایشن ڈویژن نے جمعرات کے روز ایران اور پاکستان کے درمیان تمام پروازوں کو روکنے کا اعلان کیا ہے۔

بلوچستان کے محکمۂ صحت کے حکام کے مطابق، جب سے حکام نے سرحد کو بند کیا ہے اس کے بعد سے 200 سے زائد افراد جو بلوچستان میں تافتان کراسنگ سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے انہیں دو ہفتوں کے لیے باقی لوگوں سے الگ کر دیا گیا ہے۔

اے ایف پی نے بتایا ہے کہ جانز ہاپکنز سینٹر فار ہیلتھ سیکیورٹی کی جانب سے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق، دنیا بھر میں 82،100 افراد متاثر اور 2،800 اموات ہو چکی ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500