سفارتکاری

پاکستان میں کروناوائرس کے پھیلاؤ کے پیچھے ایران کی مجرمانہ غفلت

ضیاءالرّحمٰن

18 مارچ 2020 کو پاکستان-ایران سرحدی قصبے تافتان کے راستے ایران سے لوٹنے والے زایرین کو بسیں لے جا رہی ہیں، جبکہ چہرے کا ماسک پہنے ایک فوجی پہرا دے رہا ہے۔ [شاہد علی/اے ایف پی]

18 مارچ 2020 کو پاکستان-ایران سرحدی قصبے تافتان کے راستے ایران سے لوٹنے والے زایرین کو بسیں لے جا رہی ہیں، جبکہ چہرے کا ماسک پہنے ایک فوجی پہرا دے رہا ہے۔ [شاہد علی/اے ایف پی]

کراچی – عام شہری اور صحت کے اہلکار، ہر دو پاکستانی، یکساں طور پر پاکستان میں نوول کروناوائرس کے پھیلاؤ کا زیادہ ترالزام ہمسایہ ایران پر ڈال رہے ہیں۔

ایران سے منسلک کووڈ-19 کے پہلے دو واقعات 26 فروری کو عوام کے علم میں لائے گئے۔

کراچی کا ایک 22 سالہ رہائشی یحییٰ جعفری پہلا مصدقہ مریض تھا۔ سندھ کے محکمہٴ صحت کے مطابق، اس نے 6 فروری کو 28 دیگر کے ایک گروہ کے ساتھ ایران میں زائرین کے ایک معروف مقام قم کا سفر کیا تھا۔

وہ ہلکے زکام کی علامات کے ساتھ تہران آیا اور چند ہی روز بعد کووڈ-19 کی جانچ کے مثبت نتائج آنے سے قبل، 20 فروری کو کراچی واپس آگیا۔ وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو چکا ہے۔

7 اپریل کو کروناوائرس کی جانچ کے منفی نتائج آنے پر پاکستانی ایک قرنطینہ مرکز سے نکل رہے ہیں۔ [ظاہر شاہ شیرازی]

7 اپریل کو کروناوائرس کی جانچ کے منفی نتائج آنے پر پاکستانی ایک قرنطینہ مرکز سے نکل رہے ہیں۔ [ظاہر شاہ شیرازی]

7 اپریل کو کراچی کے علاقہ شیرشاہ میں حکومتی کارکنان کروناوائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے جراثیم کش دوا کا چھڑکاؤ کر رہے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

7 اپریل کو کراچی کے علاقہ شیرشاہ میں حکومتی کارکنان کروناوائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے جراثیم کش دوا کا چھڑکاؤ کر رہے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

رواں برس کے اوائل میں ایران میں موجود پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ حکومتِ ایران نے جعفری جیسے ہزاروں زائرین کو ملک کے اندر کووڈ-19 کی وبا سے متعلق درست معلومات فراہم نہیں کیں۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک سافٹ وئیر انجنیئر عسکری، جو فروری کے اوائل میں ایران میں تھے، نے کہا کہ اس وقت کروناوائرس سے ہونے والی اموات کی افوہیں پہلے ہی پھیل رہی تھیں۔

عسکری، جنہوں نے صرف اپنے نام کا آخری حصہ استعمال کرنے کو ترجیح دی، نے کہا، "لیکن حکومتِ ایران نے عمداً کسی کو، بطورِ خاص دیگر ممالک سے آئے زائرین کو، مطلع نہیں کیا۔"

انہوں نے کہا کہ یہی وجہ تھی کہ زائرین نے زیارات جاری رکھیں اور ایران میں وقت گزارا، یہاں تک کہ حکومت نے بالآخر 19 فروری کو اس وبا اور اموات کو منکشف کیا، اور اس وقت تک یہ وائرس پاکستان میں پھیل چکا تھا۔

تنبیہات

رائیٹرز نے 2 اپریل کو ایران سے صحت کے اہکاران اور ڈاکٹروں کے حوالے سے رقم کیا کہ ایرانی حکام نے دسمبر 2019 کے اواخر اور جنوری میں قم میں تیز بخار اور پھیپھڑوں کی انفکشن والے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے متعلق ڈاکٹروں کی جانب سے تنبیہات کو نظرانداز کیا۔

پاکستانی محکمہٴ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہحکومتِ ایران کی جانب سے درست معلومات کو چھپانے کی وجہ سے پاکستان میں یہ وائرس پھیلا۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے صحت کے ایک سینیئر عہدیدار نے اپنی شناخت مخفی رکھے جانے کی شرط پر بتایا، "ایران کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے پاکستان بری طرح سے اس وائرس سے متاثر ہوا ہے۔"

انہوں نے حوالہ دیا کہ 26 فروری کو پہلے دو واقعات سامنے آنے پر پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنی 900 کلومیٹر (560 میل) طویل سرحد بند کر دی۔

اس عہدیدار نے کہا، "حکومت نے ایک سرحدی شہر تافتان میں عارضی خیموں کے شہر میں 3,000 افراد کو 14 روز کے لیے قرنطینہ کیا۔"

ڈان نے 9 اپریل کو خبر دی کہ 1,160 زائرین میں سے 453 زائرین کے بارے میں خیال تھا کہ ان کی جانچ کے نتائج منفی ہیں اور انہیں چھوڑ دیا گیا تھا، لیکن بعد میں ان کے نتائج مثبت آئے۔

وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزانے 24 مارچ کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہپاکستان میں کروناوائرس انفکشن کے تقریباً 80 فیصد واقعات ایران سے پیدا ہوئے.

پاکستان میں 5,374 مصدقہ مریضوں میں سے 1,362 ایسے پاکستانی زائرین ہیں جو ایران سے واپس لوٹے اور ان کے نتائج مثبت آئے۔ وفاقی وزارتِ صحت کے 13 اپریل کو جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق، خلیجی ریاستوں اور یورپی ممالک سمیت دیگر ممالک سے آنے والے مثبت واقعات کی تعداد 1,221 ہے۔

مجرمانہ غفلت

پاکستان-ایران تعلقات پڑھانے والے کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک محقق شعیب انصاری نے کہا کہ تہران کے کرونا وائرس کی خبر چھپانے کے پیچھے بڑی وجہ پارلیمانی انتخابات میں شرحِ رائے دہی کو متاثر ہونے سے روکنا تھی۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے کرونا وائرس سے متاثرین کے لیے قرنطینہ کے اقدامات کا اعلان کرنے کے بجائے 21 فروری کو شہریوں پر ملک کے پارلیامانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے زور دیا۔

انصاری نے کہا، "2019 کے اواخر میں وسیع پیمانے پر احتجاج، جنوری 2020 میں یوکرائنی سولین طیارے کو مار گرائے جانے کے بعد عالمی دباؤ اور امریکہ کے ساتھ بڑھے ہوئے تناؤ کے بعد حکومتِ ایران کے جواز پر سوالیہ نشان تھا۔"

حکومتِ ایران حالیہ مہینوں میں شفافیت کے مسائل کے ایک سلسلے سے متاثر ہوئی جس سے تہران کی ساکھ کو اپنی عوام اور بین الاقوامی برادری میں نمایاں نقصان پہنچا۔

جنوری میںبصری اور مفصل شواہد کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کے یوکرائن انٹرنیشنل ایئرلائن پرواز پی ایس 752 کو نشانہ بنانے کی جانب اشارہ دینے کے باوجودتہران نے کئی روز تک اس امر کی تردید کی کہ اس کے اپنے میزائل نے طیارے کو تباہ کیا۔

لیکن بڑھتے ہوئے بین الاقوامی اور داخلی دباؤ کا سامنا کرتی حکومت نے بالاخر سچائی کو تسلیم کر لیا – کہ ایرانی فوج نے ایک "تباہ کن غلطی" میں اس طیارے کو مار گرایا۔

اس اقرار – اور پردہ ڈالنے کی ایک کوشش – نے ایران میں کئی روز پر محیط حکومت مخالف احتجاج کو بھڑکا دیا۔

دسیوں ہزاروں ایرانی ایک نئے غم و غصہ کے ساتھ – روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای کا ایک حوالہ دیتے ہوئے — "آمر مردہ باد"، "جھوٹے مردہ باد" اور دیگر حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔

خامنہ ای نے متعدد مواقع پر اس وبا کو ایک دھوکہ اور دشمنوں کا پراپیگنڈا کہا ہے۔ ایرانی حکام کی ہدایت پر، چند مولویوں نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ قم میں مزار کے پاس اس مرض کو رفع کرنے کے لیے شفا کی طاقت ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ایران بصورتِ دیگر پاکستان کا اعلان شدہ اور معروف دشمن ہے اور ہمیشہ بھارت کا شریک رہا ہے، جیسا کہ بھارتی جاسوس ایجنسیاں ایران سے کام کر ہی ہیں—کلبھوشن ایک نمونہ—ثبوت

جواب

امریکی اتحادیوں کی دھمکیوں سے آزادی کے لیے

جواب