سلامتی

یورپی طاقتوں کی طرف سے امریکہ کی حمایت اور ایران کا جوہری وعدوں سے انکار

سلام ٹائمز اور اے ایف پی

ایک امریکی میرین، 4 جنوری 2020 کو عراق میں بغداد سفارتی احاطے کو کمک پہنچائے جانے کے دوران چوکی پر کھڑا ہے۔ [سینٹکام]

ایک امریکی میرین، 4 جنوری 2020 کو عراق میں بغداد سفارتی احاطے کو کمک پہنچائے جانے کے دوران چوکی پر کھڑا ہے۔ [سینٹکام]

ایرانی حکومت نے اتوار (5 جنوری) کو کہا کہ وہ اپنے نیوکلیائی وعدوں کو ترک کر دے گی اور "سنٹری فیوجز کی تعداد پر حد" کو نظر انداز کر دے گی جبکہ بہت سی یورپی طاقتوں نے اعلی ایرانی جنرل کی ہلاکت کے بعد، ایران کے ساتھ تنازعہ میں امریکہ کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔

ایران کی حکومت نے اتوار کی رات کو ایک بیان میں کہا کہ "ایران کے نیوکلیائی پروگرام کو آپریشنل میدان میں کسی حد کا سامنا نہیں ہے"۔

اس میں کہا گیا کہ یہ ایران کی یورینیم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت، افزودہ کرنے کی سطح، افزودہ کیے جانے کی مقدار اور دیگر تحقیق و بڑھوتی تک وسیع ہے۔

ابھی تک، تہران نے کہا تھا کہ اسے یورینیم کو 5 فیصد کی سطح تک افزودہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے نیوکلیائی پاور پلانٹس میں بجلی پیدا کرنے کے لیے ایندھن پیدا کر سکے۔

اعلی ایرانی عسکری راہنما 3 جنوری کو ایران میں عسکری تنصیبات کے ایک دورے کے دوران تازہ ترین صورت حال پرغور کر رہے ہیں۔ [ایران کی وزارتِ دفاع]

اعلی ایرانی عسکری راہنما 3 جنوری کو ایران میں عسکری تنصیبات کے ایک دورے کے دوران تازہ ترین صورت حال پرغور کر رہے ہیں۔ [ایران کی وزارتِ دفاع]

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کا پیرس کے ایلیسی محل سے قوم کے نام نشر کیے جانے خطاب والے خطاب کے دوران لیا گیا اسکرین شاٹ۔ انہوں نے اور برطانیہ اور جرمنی کے راہنماؤں نے امریکہ کے ایران کے ساتھ تنازعہ کے دوران امریکہ کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان کیا۔ [فرانس ٹو/ اے ایف پی]

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کا پیرس کے ایلیسی محل سے قوم کے نام نشر کیے جانے خطاب والے خطاب کے دوران لیا گیا اسکرین شاٹ۔ انہوں نے اور برطانیہ اور جرمنی کے راہنماؤں نے امریکہ کے ایران کے ساتھ تنازعہ کے دوران امریکہ کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان کیا۔ [فرانس ٹو/ اے ایف پی]

جولائی میں،ایرانی حکومت نے تسلیم کیا تھا کہ اس نے 2015 میں ہونے والے بین الاقوامی نیوکلیائی معاہدے میں یورینیم کی افزودگی پر لگائی گئی حد کی خلاف ورزی کی ہے۔

یورپی طاقتیں امریکہ کے ساتھ ہیں

جرمنی کی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے راہنماؤں نے اتوار کو کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا۔

میجر جنرل قاسم سلیمانی جو کہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (آئی آر جی سی) کی قدس فورس کے کمانڈر ہیں، کی 3 جنوری کو امریکی ڈرون سے ہلاکت نے تہران کی طرف سے، مشرقِ وسطی اور اس سے آگے عسکریت پسندی اور تنازعات کو بونے کے لیے، کئی دیہائیوں سے جاری اس مہم میں ایک اہم لمحے کو واضح کیا۔

تہران نے انتقام کا عزم کیا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکل کی فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون اور برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کے ساتھ فون کال کے بعد، لیڈروں نے "کشیدگی کو کم کرنے کی فوری ضرورت پر اتفاق" کیا۔

انہوں نے کہا کہ "ایران پر خصوصی طور پر زور دیا گیا ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال میں صبر سے کام لے"۔

میکرون نے اتوار کو امریکہ کو "اپنی مکمل یک جہتی" کا یقین دلایا اور تہران پر زور دیا کہ وہ "ایسے عسکری تنازعہ کو بڑھانے سے باز رہے جس سے علاقے میں عدم استحکام میں اضافہ ہو جائے"۔

میکرون نے ایلیسی صدارتی دفتر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں "عراق اور علاقے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی" کا حوالہ دیا اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ایرانی فورسز جن کی کمانڈ سلیمانی کے پاس تھی، قدم اٹھا سکتی ہیں جس سے علاقے میں عدم استحکام پیدا ہو جائے گا۔

میکرون نے "اس بات کی ضرورت کو دہرایا کہ ایرن ایسی سرگرمیوں کا ختم کرے"۔

میکرون نے "دولتِ اسلامیہ (داعش) کا عربی نام استعمال کرتے ہوئے کہا کہ "داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے اقدامات کو اٹھائے جانے کو ترجیح دی جانی چاہیے اور اس سلسلے میں ایران کی خودمختاری، اس کی سیکورٹی اور علاقائی استحکام کو مکمل احترام دیا جانا چاہیے"۔

جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ "جنرل قاسم سلیمانی ہمارے مفادات کے لیے ایک خطرہ تھا اور وہ علاقے میں خلل ڈالنے اور عدم استحکام کے رویے کا ذمہ دار تھا"۔

"ہزاروں بے گناہ شہریوں اور مغربی اہلکاروں کی ہلاکتوں کی وجہ بننے والے اقدامات میں اس کے مرکزی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے، ہم اس کی موت پر افسوس نہیں کریں گے"۔

"تاہم یہ بات واضح ہے کہ انتقام یا جوابی کاروائی کے تمام مطالبوں سے علاقے میں مزید تشدد ہو گا جو کہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے"۔

جانسن نے کہا کہ وزارتی ملاقاتوں اور مزید بین الاقوامی کالز کے بعد، ایم پیز کو صورتِ حال کے بارے میں منگل (7 جنوری) کو آگاہ کیا جائے گا۔

تین جنوری کو، جرمنی کی حکومت کی ترجمان نے کہا کہ امریکی حملہ جس میں سلیمانی اور عراق کے ایک اعلی عسکری کمانڈر کو ہلاک کیا گیا، تہران کی طرف سے "اشتعال انگیزی" کے جواب میں تھا۔

ترجمان الریک ڈیمر نے کہا کہ "امریکہ کو قدم، ایسی بہت سی عسکری اشتعال انگیزیوں کے جواب میں تھا جن کی ذمہ داری ایران پر عائد ہوتی ہے"۔

پریس ریلیز کے مطابق، اس ویک اینڈ پر ایک فون کال کے دوران، یورپین یونین (ای یو) کے خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جاوید ظریف کو مذاکرات کے لیے برسلز آنے کی دعوت دی۔

ای یو کے مطابق، ظریف نے اس دعوت کا کوئی جواب نہیں دیا جس کا مقصد "ان معاملات پر ان کی شمولیت کو جاری رکھنا تھا"۔

"بڑی غلطی"

امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے اتوار کو کہا کہ سلیمانی کی ہلاکت کے بعد، تہران ممکنہ طور پر امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے کی کوشش کرے گا۔

انہوں نے اتوار کو نشر کیے جانے والے تبصرے میں فاکس نیوز کو بتایا کہ "ہم سمجھتے ہیں کہ ایران کی طرف سے غلطی کرنے اور ہماری کچھ فورسز، عراق میں موجود عسکری فورسز یا شمال مشرقی شام میں موجود فوجیوں کے پیچھے جانے کا فیصلہ کرنے کا حقیقی امکان موجود ہے"۔

ان کا تبصرہ اس وقت آیا ہے جب ایران کے سپریم لیڈر کے عسکری مشیر نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے سلیمانی کو ہلاک کیے جانے کے بعد، تہران کی طرف سے "عسکری مقامات" پر "عسکری" ردعمل ہو گا۔

پومپیو نے کہا کہ "ایران کی طرف سے ان کے پیچھے جانا ایک بہت بڑی غلطی ہو گی"۔

امریکہ کے علاقے میں تقریبا 60,000 فوجی ہیں جن میں عراق میں موجود 5,200 فوجی بھی شامل ہیں۔ واشنگٹن نے 3 جنوری کو سلیمانی کی ہلاکت کے بعد، مشرقِ وسطی میں مزید کئی ہزار فوجی بھیجنے کا حکم دیا ہے۔

عینی شاہدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ اتوار کو بغداد میں امریکہ کے سفارت خانے کے قریب راکٹ گرا، اس سے کچھ گھنٹے پہلے سفیر کو اس امریکی حملے پر بلایا گیا تھا جس نے اعلی عراقی و ایرانی کمانڈروں کو ہلاک کر دیا تھا۔

اتوار کا حملہ، مسلسل دوسری ایسی رات تھی جب گرین زون، جو کہ بغداد میں انتہائی زیادہ نگرانی کا علاقہ ہے کو نشانہ بنایا گیا اور گزشتہ دو ماہ میں امریکہ کی تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے کا 14 واں واقعہ تھا۔

طبی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ اسی وقت ایک تیسرا راکٹ گرین زون کے باہر ایک گھر پر گرا اور چار افراد زخمی ہو گئے۔

سلیمانی کے منصوبے کی تفصیلات سامنے آ گئیں

ایسے کچھ منصوبوں کی تفصیلات سامنے آ گئی ہیں جو سلیمانی امریکی فورسز کے خلاف کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق،سلیمانی ایران کی پشت پناہی رکھنے والے عراقی عسکری گروہوں کے کئی راہنماؤں سے اکتوبر کے وسط میں ملا جب عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاجوں میں زور آ رہا تھا اور اسلامی جمہوریہ پر ناپسندیدہ روشنی پڑ رہی تھی۔

اکتوبر میں ہونے والی میٹنگ سے دو ہفتے پہلے، سلیمانی نے آئی آر جی سی کو حکم دیا تہا کہ وہ زیادہ جدید ہتھیار جیسے کہ کٹیوشا راکٹوں اور کندھے پر رکھ کر چلائے جانے والے میزائلوں کو جو کہ ہیلی کاپٹروں کو گرا سکتے ہیں کو دو سرحد پار کرنے کے دو راستوں کے ذریعے عراق منتقل کر دیں۔ یہ بات اس میٹنگ پر بریف کیے جانے والے دو ملیشیا کمانڈروں اور دو سیکورٹی کے ذرائع نے رائٹرز کو بتائی۔

بغداد ولا میں سلیمانی نے جمع ہونے والے کمانڈروں کو کہا کہ وہ کم شہرت رکھنے والے پیراملٹری فوجیوں کا ایک نیا ملیشیا گروہ بنائیں جو عراق کی عسکری بیس پر موجود امریکی شہریوں کو راکٹوں سے نشانہ بنا سکیں۔

ملیشیا کے ایک ذریعہ نے رائٹرز کو بتایا کہ سلیمانی نے انہیں بتایا کہ ایسے گروہ کا "امریکیوں کی طرف سے پتہ لگایا جانا مشکل ہو گا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500