سلامتی

ایرانی انتقام کے امریکی فوج کو جانی نقصان پہنچانے میں ناکامی کے بعد تناؤ میں کمی

کاروانسرائی اور اے ایف پی

اس فائل فوٹو میں، ایک امریکی میرین عراق میں ال اسد ایئر بیس کی نگرانی کر رہا ہے جسے 7 جنوری کو ایرانی میزائلوں نے نشانہ بنایا تھا۔ [جم واٹسن/ اے ایف پی]

اس فائل فوٹو میں، ایک امریکی میرین عراق میں ال اسد ایئر بیس کی نگرانی کر رہا ہے جسے 7 جنوری کو ایرانی میزائلوں نے نشانہ بنایا تھا۔ [جم واٹسن/ اے ایف پی]

بظاہر بدھ (8 جنوری) کو کشیدگی میں اس وقت کمی آئی جب ایران کی طرف سے امریکی اور غیر ملکی فوجیوں کی رہائشی بیسوں پر میزائل سے ہونے والے حملے میں کوئی شخص بھی ہلاک نہیں ہوا۔

امریکہ کے صدر ٹرمپ نے قوم کے نام ایک خطاب میں اس بات کی تصدیق کی کہ ان حملوں سے عراق میں امریکی تنصیبات کو بہت معمولی نقصان پہنچا ہے۔

واشنگٹن اور تہران کے حکام نے کہا ہے کہ ایران نے بدھ کو ان عراقی بیسز پر حملے کیے جنہیں امریکی فوج استعمال کر رہی ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ کی طرف سے میجر جنرل قاسم سلیمانی جو کہ ایران کی سپاہِ پاسدرانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کے کمانڈر تھے، کو ہلاک کیے جانے پر وعدہ کردہ پہلا انتقام تھا۔

سلیمانی کو 3 جنوری کو بغداد میں ہلاک کیا گیا تھا۔

ایران کے سپریم لیڈر علی خمینی 8 جنوری کو تہران میں سامعین سے خطاب کر رہے ہیں اور انہوں نے عراق میں امریکی بیس پر ہونے والے میزائل کے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ [ایران کی وزارتِ دفاع]

ایران کے سپریم لیڈر علی خمینی 8 جنوری کو تہران میں سامعین سے خطاب کر رہے ہیں اور انہوں نے عراق میں امریکی بیس پر ہونے والے میزائل کے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ [ایران کی وزارتِ دفاع]

داغے جانے والے 22 میزائلوں میں سے دو، عراق میں امریکی فوجیوں کی طرف سے استعمال کی جانے والی ال اسد اور اربل کی بیس پر گرے مگر کسی بھی عراقی ہلاکت نہیں ہوئی۔ یہ بات بغداد میں فوج نے رات کو ہونے والے حملے کے بعد بدھ کو بتائی۔

آئی آر جی ایس، جسے گزشتہ اپریل میں ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا گیا تھا،نے میزائل کے اس حملے کی فوری طور پر ذمہ داری قبول کر لی اور مزید دھمکی آمیز بیانات جاری کیے ہیں۔

گروہ نے کہا کہ "کسی بھی نئی بدنیتی یا جارحیت کی کاروائی کو اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور تباہ کن جواب دیا جائے گا"۔

ایران کی پشت پنائی رکھنے والے عراقی عسکریت پسندوں نے بھی دھمکی دی ہے اور وعدہ کیا ہے کہ ان کے حملے "ایران کے ردعمل سے کم سائز کے نہیں ہوں گے"۔

ٹرمپ نے اپنے تبصرے کے آغاز میں کہا کہ "جب تک میں امریکہ کا صدر ہوں،ایران کو کبھی بھی نیوکلیائی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہو گی" اور بعد میں انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ امریکہ کیسے ایران بھی نئی پابندیاں عائد کرے گا۔

ٹرمپ نے تفصیل سے بتایا کہ سلیمانی نے کیسے کئی دہائیوں تک امریکی شہریوں اور اس کے ساتھیوں کی عراق، یمن، شام، لبنان اور افغانستان میں ہلاکتوں کا ذمہ دار رہا ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ "اسے بہت پہلے ہلاک کر دیا جانا چاہیے تھا"۔

عالمی ردعمل

دنیا بھر کے راہنماؤں نے بدھ (8 جنوری) کو ایران کے میزائل کے حملے کی مذمت کی۔

برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے بدھ کو ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ اتحادی افواج کے زیرِ استعمال عراقی بیسز پر دوبارہ راکٹ سے حملہ نہ کرے۔

جانسن نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ "ایران کو ان لاپرواہ اور خطرناک حملوں کو دہرانا نہیں چاہیے اور اس کی بجائے کشیدگی کو کم کرنے پر دھیان دینا چاہیے"۔

جرمنی کے وزیرِ دفاع نے ایران کے تازہ ترین حملے کی مذمت کی اور تہران سے کہا کہ وہ تنازعہ کے "بل کھاتے سلسلے" کو ختم کرے۔

اینگریٹ کرامپ-کرین بوؤر نے براڈکاسٹر اے آر ڈی کے بتایا کہ "جرمنی کی حکومت اس جارحیت کی سخت مذمت کرتی ہے۔۔۔ اب یہ بنیادی طور پر ایران پر ہے کہ وہ کشیدگی کو مزید بڑھانے سے باز رہیں"۔

یورپین یونین (ای یو) کے خارجہ پالیسی کے وزیر جوزف بوریل نے کہا کہ یہ حملہ "تصادم اور تنازعہ میں اضافہ" کی ایک اور مثال ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "تشدد کے سلسلے کو مزید بڑھانا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے"۔ انہوں نے بھی متنبہ کیا کہ یہ بحران "دولتِ اسلامیہ" (داعش) کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

ای یو کے وزیرِ خارجہ جمعہ (10 جنوری) کو ایرن کے بحران پر ہنگامی مذاکرات کریں گے تاکہ اس بات پر غور کیا جا سکے کہ بلاک کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کیا کر سکتا ہے۔

حملہ "عراقی خودمختاری کی خلاف ورزی"

عراقی پارلیمنٹ کے سپیکر محمد ال حلبوشی نے بدھ کو ایرانی میزائلوں کے حملے کی انتقامی بوچھاڑ کی مذمت کی اور اسے "عراقی خودمختاری کی خلاف ورزی" قرار دیا۔

حلبوشی جو کہ عراق کے حکومتی اشتراک کے اقبالی نظام کے سب سے سینئر سنی عرب ہیں نے عراقی کو بیرونی طاقتوں کے لیے پراکسی کا میدانِ جنگ بنائے جانے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ "ہم عراقی کی خودمختاری کی آج صبح سویرے کی جانے والی ایرانی خلاف ورزی کی مذمت کرتے ہیں۔۔۔ ہم اس بات سے مکمل طور پر انکار کرتے ہیں کہ جنگ کرنے والے فریق عراق کے میدان کو اپنا مفاد حاصل کرنے کے لیے استعمال کریں"۔

عراق کے وزیراعظم کے دفتر نے بھی اس سے ملتا جلتا بیان جاری کیا ہے۔

وزیراعظم کے دفتر نے کہا کہ "عراقی اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی اور اپنی سرزمین پر کسی بھی حملے کے مسترد کرتا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

آپ ایک شھید کمانڈر کو ہلاک کہتے ہیں یہ آپکی مسلمانی نہیں مگر منافقی ظاہر کرتا ہے

جواب