مذہب

پشاور میں امن کے داعیوں کی جانب سے نوجوانوں میں بین الاعتقاد رواداری کی حوصلہ افزائی

دانش یوسفزئی

میمونہ اختر اپنے گروہ کے ارکان کے ہمراہ 12 دسمبر کو امور پر بات چیت کرنے کے لیے پشاور میں گرودوارہ بیبا سنگھ کا دورہ کر رہی ہیں۔ [دانش یوسفزئی]

میمونہ اختر اپنے گروہ کے ارکان کے ہمراہ 12 دسمبر کو امور پر بات چیت کرنے کے لیے پشاور میں گرودوارہ بیبا سنگھ کا دورہ کر رہی ہیں۔ [دانش یوسفزئی]

پشاور – میمونہ اختر کی زندگی کا ایک مقصد پشاور کے متنوع پسِ منظر کے نوجوانوں کوبین العقائد رواداری پیدا کرتے ہوئے بہتر طور پر مل جل کر رہنا سیکھنےمیں مدد کرنا ہے۔

اس مقصد کے لیے اختر نے ایک ہی جیسی ذہنیت کے ایسے نوجوانوں کا گروہ، امن کے داعی، تشکیل دیا جو یہ امر ثابت کرنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں کہ کیسے مختلف مذہبی گروہ معاشرے میں اکٹھے اور پر امن طور پر رہ سکتے ہیں۔

اختر نے کہا، "ہم نے کلیساؤں، گرودواروں، مندروں، امام بارگاہوں اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کے دورے کیے۔ ہماری ٹیم مذہبی اور نسلی فہم اور غلط فہمیوں سے متعلق معاشرے میں انہیں درپیش مسائل سے متعلق بات چیت کرتی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ امن کے داعی نوجوانوں کے لیے ایک ایسی جگہ پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں جہاں وہ معاشرے کے عمومی مسائل پر بامعنی بات چیت کر سکیں۔ یہ گروہ پشاور کے نوجوانان کے لیے سمینار اور آگاہی کی نشستوں کا اہتمام کرتا ہے۔

میمونہ اختر 18 دسمبر کو پشاور میں مختلف نسلی گروہوں کے درمیان غلط فہمیاں کم کرنے کے مقصد سے اپنی تنظیم کے دستورالعمل کو بہتر بنا رہی ہیں۔ [دانش یوسفزئی]

میمونہ اختر 18 دسمبر کو پشاور میں مختلف نسلی گروہوں کے درمیان غلط فہمیاں کم کرنے کے مقصد سے اپنی تنظیم کے دستورالعمل کو بہتر بنا رہی ہیں۔ [دانش یوسفزئی]

انہوں نے کہا، "اس فورم میں ہم نوجوانوں سے بین العقائد رواداری سے متعلق بات چیت کرتے ہیں اور دوسروں کی جانب رویہ اور سوچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔"

29 سالہ خاتون نے کہا، "ہم ان کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کر رہے ہیں جہاں وہ مل کر بیٹھ سکیں اور ایک اچھے ماحول میں اپنے مذہب سے متعلق غلط فہمیوں پر بات چیت کر سکیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ یہ گروہ — جنس، رنگ، عقیدہ، ذات یا مذہبی عقیدہ سے قطعہ نظر – نوجوانوں کے لیے اپنے تنوع کی خوشی مننانے کی غرض سے ایک محفوظ پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا، "ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ احترام حاصل کریں اور دیگر گروہوں کے ایمان کا احترام کریں۔"

’رسل و رسائل کے خلا‘ کو پر کرنا

علاقہ کے نوجوانوں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے اور اس میں شریک ہوئے ہیں۔

پشاور کے ایک رہائشی اور امن کے داعیوں کے ساتھ ایک رضاکار، ریاض غفور نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ گروہ خیبر پختونخوا کے نوجوانوں کے ساتھ تنوع منانے کے مقصد سے ایک رضاکارانہ کاوش ہے۔

انہوں نے کہا، "امن کے داعی نیٹ ورک کے ذریعے، ہم مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان رسل و سسائل کے خلا کو پر کرنے اور انہیں بات کرنے کا ایک موقع فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

غفور نے مزید کہا کہ امن کے داعی نوجوانوں کو بین العقائد رواداری اور بات چیت کی جگہ بنانے کے لیے مذہبی مقامات کے دورے کرنے جیسی سرگرمیوں میں مشغول کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ تنظیم معاشرے میں امن و رواداری کو بڑھانے کے لیے مختلف النسل پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے ارکان کے مابین اعتماد اور معاون اور معتبر تعلقات کو فروغ دے رہی ہے۔

اختر نے کہا کہ اس گروہ کا کام پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔

اختر نے کہا، "اپنے کام اور اقدامات کی بنیاد پر، ہم نے [کے پی] نوجوانوں کی تجدید کا چیلینج جیتا، ہم اپنے مجوزہ سنگ ہائے میل عبور کرنے کے لیے اس گرانٹ کا نفاذ کر رہے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اس تنظیم نے "نوجوانوں کے لیے آوازیں" کے عنوان سے تحقیق پر مبنی ایک دستورالعمل بھی تشکیل دیا ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ دستورالعمل کلّی طور پر اپنائی جانے والی ایک دستاویز ہے جو امن کے نظریہ کی آفاقی قبولیت کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ یہ اس حقیقت کو منکشف کرتا ہے کہ تنوع دنیا کے تمام دلکش رنگوں کے لیے ایک چراغِ راہ ہے۔"

غلط فہمیوں میں کمی

پشاور میں پاکستان کاؤنسل آف ورلڈ ریلیجیئس-فیتھ فرینڈز سمیت ہماری مقامی اور بین الاقوامی غیرنافع تنظییمیں صوبے میں بین العقائد رواداری کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔

11 دسمبر کو اس گروہ نے اپنی خواتین شاخ کے لیے ایک ایک روزہ نشست منعقد کی۔

اس تربیتی ورکشاپ میں مسلم، مسیحی، سکھ اور ہندو سمیت مختلف مذاہب سے خواتین نے شرکت کی۔

پریزنٹیشنز اور بصری دستایزی فلموں کے ذریعے نوجوانوں اور علمائے دین سمیت 60 سے زائد شرکاء نے مختلف مذاہب کے قوائد اور اعتقادات سے متعلق آگاہی حاصل کی۔

تربیتی نشست کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے، پشاور کی مسیحی برادری کے ایک رہنما اور فیتھ فرینڈز کے ایک فعال رکن، پریسٹ جون جوزف نے اختر اور امن کے داعیوں کے کام کو سراہا۔

انہوں نے کہا، "ہمیں میمونہ جیسے نوجوانوں کی پذیرائی کرنی چاہیئے، جواقلیتوں کو قریب لانےاور خوشیاں پھیلانے پر کام کر رہی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ مرد و خواتین اور نوجوانوں کو معاشرے میں بین الاعتقاد رواداری سے متعلق آگاہی پیدا کرنی چاہیئے۔ "وہ سب اپنے متعلقہ شعبوں میں عوام کو آگاہ کرنے اور انہیں دوسروں کے ایمان کا احترام سکھانے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ مختلف مذاہب سے متعلق ممنوعات اور ان سے خود ساختہ انتسابات کو توڑنے کی ضرورت ہے۔

جوزف نے کہا، "ہمیں اقلیتوں اور ان کے اعتقادات کو تسلیم کرنا چاہیئے اور ان کی حمایت کرنی چاہیئے۔"

فیتھ فرینڈز کے بانی، مقصود احمد سلفی نے کہا کہ یہ گروہ 2009 میں کے پی میں مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے رہنماؤں کی معاونت سے تشکیل پایا۔

سلفی نے کہا، "ہماری تنظیم کا بنیادی مقصد معاشرے میں امن پیدا کرنا اور صوبے میں مذاہب کے اندر اور ان کے مابین رواداری کو فروغ دینے کی غرض سے نوجوانوں کے لیے ایک ماحول فراہم کرنا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ معاشرتی اتصال اور بین العقائد رواداری کی پیش رفت کے لیے نوجوانوں اور خواتین کا کردار فیصلہ کن ہے۔

انہوں نے کہا، "رہنماؤں اور معاونین کے طور پر ان کے کردار کو یقینی بنا کر ہمایک بردبار معاشرے کی تکمیل کی راہ ہموار کر رہےہیں"۔

اکبر نے کہا کہ مل جل کر پر امن طور پر رہنا اور مذہبی رواداری افراد اور مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اس کی جستجو سے مشروط ہیں۔

انہوں نے کہا، "ہمیں مختلف ثقافتوں اور عقائد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ تنوع ہمارے معاشرے کو حیرت انگیز بناتا ہے۔ لہٰذا انہیں [ثقافتوں اور عقائد] متصل کرنے کے راستے میں رکاوٹوں کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیئے۔"

انہوں نے کہا کہ اس وقت امن اور رواداری کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500