مذہب

پاکستانی مسلمان خاندان کی چرچ کے لیے ایک صدی کی خدمات پاکستان کی بین المذہبی ہم آہنگی کی عکاس ہیں

عدیل سید

تاریخی سینٹ میتھیوز چرچ، جسے برطانیہ نے 1914 میں ایبٹ آباد ڈسٹرکٹ میں بنایا تھا، کو 31 مارچ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ]عدیل سید[

تاریخی سینٹ میتھیوز چرچ، جسے برطانیہ نے 1914 میں ایبٹ آباد ڈسٹرکٹ میں بنایا تھا، کو 31 مارچ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ]عدیل سید[

پشاور -- ایک مسلمان خاندان ایبٹ آباد ڈسٹرکٹ، خیبر پختونخواہ میں تقریبا ایک صدی سے عیسائی چرچ کے نگہبان کے طور پر کام کر رہا ہے، جس سے مختلف متنوع عقیدوں کے پاکستانی شہریوں میں، بین المذہبی ہم آہنگی، برداشت اور مذہبی احترام کی عکاسی ہوتی ہے۔

وحید مراد جو کہ 40 کے آخری یا 50 کے پہلے پٹے میں ہیں، اپنے خاندان کی تیسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ایبٹ آباد ڈسٹرکٹ کے پہاڑی علاقے نتھیاگلی میں سینٹ میتھیوز چرچ کی خدمت اور دیکھ بھال کی ہے۔

یہ تاریخی چرچ، اپنے شاہانہ ڈیزائن اور فنکارانہ لکڑی کے کام کے باعث علاقے میں آنے والے سیاحوں کے لیے پرکشش ہے۔

مراد نے 31 مارچ کو پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "1914 میں، سینٹ میتھیوز چرچ قائم کیا گیا تھا اور کچھ سالوں کے بعد میرے مرحوم دادا محمد حسین نے اس عبادت گاہ کی دیکھ بھال کرنی شروع کی"۔

نتھیاگلی میں سینٹ میتھیوز چرچ کے نگہبان وحید مراد 31 مارچ کو برف صاف کر رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

نتھیاگلی میں سینٹ میتھیوز چرچ کے نگہبان وحید مراد 31 مارچ کو برف صاف کر رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

وحید مراد 31 مارچ کو سینٹ میتھیوز چرچ کے اندر معمول کی جھاڑ پونچھ کر رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

وحید مراد 31 مارچ کو سینٹ میتھیوز چرچ کے اندر معمول کی جھاڑ پونچھ کر رہے ہیں۔ ]عدیل سید[

انہوں نے کہا کہ "میرے دادا کے پاس مہمان خانے میں کام کرنے کا موقع تھا مگر انہوں نے چرچ میں کام کرنے کو ترجیح دی"۔

ان کے دادا نے 35 سال تک چرچ کی خدمت کی اور ان کی وفات کے بعد، مراد کے والد شکور خان نے ان خدمات کو سنبھال لیا۔

مراد نے کہا کہ "میرے والد نے 45 سال تک اس تاریخی چرچ کی خدمات سرانجام دیں اور میں نے ان کے متبادل کے طور پر گزشتہ 17 سال سے خدمات انجام دی ہیں۔ ہمارے پورے خاندان کی خدمت تقریبا 97 سال بنتی ہے"۔

مراد نے کہا کہ ان کا اپنا گھر 6 کلومیٹر کے فاصلے پر ملاچھ گاؤں میں ہے مگر وہ باقاعدگی سے ہر روز چرچ صفائی، جھاڑ پونچھ، پھول دینے یہاں تک کہ گھنٹہ بجانے کے لیے آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نتھیاگلی میں کوئی مقامی عیسائی نہیں ہے مگر میں ہر روز باقاعدگی سے چرچ جاتا ہوں اور اسے عبادت گزاروں کے لیے کھلا رکھتا ہوں۔

چرچ آنے والے زیادہ تر لوگ سیاح ہیں جن میں عیسائی اور مسلمان دونوں ہی شامل ہیں -- جو کہ موسمِ گرما میں نتھیاگلی آتے ہیں۔

جبکہ سینٹ میتھیوز چرچ کا پادری وہاں گرمیوں کے مہینے میں تین ماہ کے لیے وہاں قیام کرتا ہے، باقی کا سال اس کی دیکھ بھال مسلمان نگران کرتے ہیں۔

مسلمان اور مسیحی ہم آہنگی

مراد نے کہا کہ وہ چرچ کی خدمات سرانجام دینے پر فخر کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ عبادت کی ہر جگہ کا مسجد کے طور پر احترام کیا جانا چاہیے اور وہ اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ اس کی وفات کے بعد چرچ کی دیکھ بھال کو جاری رکھیں۔

مقامی افراد اور راہنما پہاڑی علاقے کے سخت موسمی حالات کے باجود، عمارت کی جگمگاتی ہوئی دیکھ بھال کا سہرا مراد اور اس کے آباؤ اجداد کے سر باندھتے ہیں۔

نتھیاگلی کے ایک شہری محمد عمران نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ایک مسلمان کو چرچ کے نگہبان کے طور پر کام کرتے ہوئے دیکھنا بہت حیرت انگیز ہے اور یہ ہمارے مذہب کی حقیقی تصویر کی عکاسی ہے جو ہمیں برداشت کی تعلیم اور دوسروں کے مذاہب کے احترام کا سبق سکھاتا ہے"۔

چرچ پراپرٹیز ڈیوسس آف پشاور کے سیکریٹری انجم تسلیم نے بھی مراد کے خاندان کی طرف سے چرچ کے لیے دکھائی جانے والی وفاداری کی تعریف کی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "مسلمان خاندان نے عیسائیوں کے لیے بہت قابلِ قدر خدمت انجام دی ہے جسے ہم تسلیم کرتے اور اس کی قدر کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "مسلمانوں اور عیسائیوں کے باہمی مل جل کر رہنے" کی دوسری مثالیں بھی موجود ہیں۔ تسلیم کے مطابق، ایبٹ آباد ڈسٹرکٹ کی ایک اور پہاڑی تفریح گاہ ٹھنڈیانی میں ایک اور مسلمان خاندان وہاں کے چرچ کے لیے ایسی ہی خدمات فراہم کر رہا ہے۔

پاکستان میں برداشت

پشاور ڈسٹرکٹ کے ایک سابقہ خطیب اور پشاور سے تعلق رکھنے والی پاکستان کونسل آف ورلڈ ریلیجنز کے بنیادی رکن ڈاکٹر عبدل غفور نے اتفاق کیا کہ مسلمان خاندانوں کی طرف سے چرچوں کے لیے ایسا تردد پاکستانیوں کے اس احترام کی عکاسی کرتا ہے جو وہ اپنے دلوں میں تمام مذاہب کے لیے رکھتے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ پاکستانی معاشرے کی حقیقی تصویر ہے جہاں مختلف عقائد کے لوگ باہمی طور پر مل جل کر برداشت سے رہ رہے ہیں"۔

نگہبان خاندانوں کا رویہ ان انتہاپسندوں سے انتہائی مختلف ہے جنہوں نے پاکستان میں عیسائیوں اور ان کے چرچوں کو نشانہ بنایا ہے۔ مثال کے طور پر، 2013 میں آل سینٹز چرچ پشاور میں ہونے والے جڑواں بم دھماکوں میں 120 عبادت گزار ہلاک ہو گئے تھے۔

ماضی کے تشدد کو اس ہم آہنگی کو داغ دار نہیں کرنا چاہیے جو ملک میں مختلف عقائد کو ماننے والوں کے درمیان موجود ہے۔ یہ بات پشاور ہندو برادری کے نمائںدے اور پاکستان کونسل آف ورلڈ ریلیجنز کے بانی رکن ہارون سراب دیال نے بتائی۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ یہ ہم آہنگی "پاکستانی شہریوں کی ٹھوس اقدار اور طرزِ زندگی کی نمائندگی کرتی ہیں جن کی شناخت کو مٹھی بھر عناصر کے غلط کاموں سے نقصان پہنچا ہے"۔

سیاحت کے بھرپور مواقع

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس روحانی سیاحت کے وسیع مواقع ہیں کیونکہ یہ ملک نہ صرف اسلام بلکہ تمام مذاہب کے انتہائی مقدس مقامات کا گھر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کاایک ہندو مندر بابا ستے رام کیول ایک اور مذہبی جگہ کی مثال ہے جس کی مسلمانوں نے صدیوں سے دیکھ بھال کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ علاوہ ازیں، ایبٹ آباد ڈسٹرکٹ میں ایک سکھ گوردوراہ اور مسجد کی دیوار سانجھی ہے جبکہ ہندو مندر اور چرچ بھی قریب ہی واقعہ ہیں۔

صبح کے وقت، شیبٹ آباد ڈسٹرکٹ کے گوردوارہ گلی کے علاقے کے شہری مسجد سے آذان کی آواز، مندر سے بھجن اور چرچ سے گھنٹیوں کی آواز سے اٹھتے ہیں جو کہ علاقے کے میں رہنے والوں کے درمیان مستحکم ہم آہنگی کی عکاسی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ ایک پیارا چرچ ہے اور یہاں گرمیوں میں ہر اتوار سروس منعقد ہوتی تھی. ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہمیشہ سے تھی. اور بہت اچھا خیال رکھنےکے لیئے شکریہ.

جواب

بہت خوب عدیل سعید صاحب! لکھتے رہیے

جواب