مذہب

مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے فعالیت پسندوں کا ملک بھر میں 2,000 کلومیٹر سفر

ضیاءالرّحمٰن

امن کے اس جلوس کے شرکاء نے 21 اپریل کو سری لنکا میں ایسٹر سنڈے خودکش بم حملے میں جاںبحق ہونے والوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے 29 اپریل کو لاہور میں ایک رتجگا منعقد کیا۔ [ضیاءالرّحمٰن]

امن کے اس جلوس کے شرکاء نے 21 اپریل کو سری لنکا میں ایسٹر سنڈے خودکش بم حملے میں جاںبحق ہونے والوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے 29 اپریل کو لاہور میں ایک رتجگا منعقد کیا۔ [ضیاءالرّحمٰن]

کراچی – ملک میں امن کی واپسی کے ساتھ، پاکستانی فعالیت پسند زیادہ سے زیادہ فعال ہوتے جا رہے ہیں اور بین العقائد ہم آہنگی اورمذہبی رواداری کے فروغکے لیے مزید سرگرمیوں کا اہتمام کر رہے ہیں۔

ایک تازہ ترین مثال میں، سول سوسائٹی اور امن کے فعالیت پسندوں نے 24 اپریل کو کراچی سے شروع ہو کر 29 اپریل کو لاہور میں اختتام پذیر ہونے والے ایک چھ روزہ امن کانوائے کا انعقاد کیا۔ انہوں نے شہروں کے درمیان کاروں پر سفر کیا لیکن شہروں کے اندر مارچ کیا۔

ایک ملک گیر سول سوسائٹی گروہ رواداری تحریک (آر ٹی) کے زیرِ اہتمام اس "انسانیت مارچ" کا مقصد امن اور مذہبی رواداری کا پیغام پھیلانا تھا۔

عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں سمیت ملک بھر سے فعالیت پسند 24 اپریل کو افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے کراچی میں جمع ہوئے اور جلوس کا آغاز کیا۔

چھ روزہ امن جلوس کی کامیابی منانے کے لیے 29 اپریل کو فنکار لاہور میں رواداری میلہ میں فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

چھ روزہ امن جلوس کی کامیابی منانے کے لیے 29 اپریل کو فنکار لاہور میں رواداری میلہ میں فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

آر ٹی کے ڈائرئکٹر سیمسن سلامت نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "اس جلوس کا آغاز پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے ہوا اور یہ 25 شہروں سے گزرتا ہوا دوسرے بڑے شہر، لاہور میں اختتام پزیر ہوا۔"

انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد مختلف نسلوں، ثقافتوں اورمختلف عقائد کے ارکاناور مختلف صوبوں کے باشندوں کو اکٹھا کرنا اور انہیں امن، تنوع اور بین العقائد رواداری کے حق میں فعال کرنا تھا۔

امن موافق اور عسکریت پسند مخالف نعروں کے حامل پلے کارڈ اور بینر اٹھائے، شرکاء نے تقریباً 2,000 کلومیٹر سفر کیا اور لاہور رکنے سے قبل حیدرآباد، سرکند، مورو، خیرپور، سکھر، گھوٹکی، رحیم یارخان، بہاولپور، ملتان، فیصل آباد اور قصور سے گزرے۔

لاہور میں انہوں نے لاہور پریس کلب سے پنجاب اسمبلی تک مارچ کیا۔

سلامت نے کہا، "ہر ضلع میں شرکاء نے دہشتگردی اور عسکریت پسندی کے خلاف ریلیوں کا احتمام کیا، اور مقامی باشندوں، امن کے گروہوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے شرکت کی اور اس مقصد کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔"

29 اپریل کو جلوس کے اختتام پر شرکاء نے صوفی موسیقی، رقص اور تھیئیٹر کے ساتھ اس مہم کی کامیابی منانے کے لیے لاہور میں منعقد کیے گئےایک بڑے رواداری میلہ میں شرکت کی۔

شرکاء نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ مذہب کو ایک نجی معاملہ تصور کیا جائے اور اسے ریاستی امور اور سیاست سے جدا رکھا جائے۔

اس قرارداد میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ انسدادِ دہشتگردی کے قومی ایکشن پلان کے مطابق، عسکریت پسندی اور مذہبی منافرت کے فروغ میں ملوث شدت پسند تنظیموں کے خلاف سخت کاروائی کرے۔

صوفی مزاروں کے دورے

جلوس کے جزُ کے طور پر شرکاء نے صوفی بزرگوں شاہ عبدالطیف بھٹائی (بھِٹ شاہ ٹاؤن)، سچل سرمست (خیرپور)، اور بلہے شاہ (قصور) کے مزارات کے دورے کیے۔

کانوائے کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے والے، جامعہ کراچی کے ایک طالبِ علم فیّاض سومرو نے کہا کہ تصوف کا برِّ صغیر میں معاشروں پر ایک عمیق اثر ہے، اور صوفی مزارات کی ایک بڑی تعداد پاکستان اور افغانستان کے منظر نامہ پر موجود ہے۔

سومرو نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "طالبان اور داعش [دولتِ اسلامیہٴ] کے عسکریت پسند تصوف کو اسلام کے اپنے بنیاد پرستانہ برانڈ کے لیے ایک بڑا خطرہ خیال کرتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ تصوف کے پیروکاروں نے ہمیشہ شہریوں کے سر قلم کیے جانے اور مساجد اور مزارات پر بم حملوں جیسے طالبان کے غیر اسلامی اقدامات کی مذمت کی ہے۔

اس وجہ سے داعش اور طالبان عسکریت پسندوں نے پاکستان میں متواتر صوفی مزارات کو حدف بنایا ہے۔

اسی بدھ (8 مئی) کو پاکستان کے قدیم ترین اور معروف ترین صوفی مزارات میں سے ایک، لاہور کے داتا دربار پرتحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک دھڑے نے ایک خودکش بم حملہ کرتے ہوئےدرجنوں کو جانبحق کردیا۔

فروری 2017 میں داعش نے سیہون، سندھ میں صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر 85 افراد کی ہلاکت اور 300 کے زخمی ہونے کا باعث بننے والے ایک خود کش بم حملہ کی ذمہ داری قبول کی۔ دو سے زائد برس بعد 28 فروری کو سندھ پولیس نے اس خونریزی کے منصوبہ ساز، داعش کے علاقائی سربراہ عبداللہ بروہی کو قتل کر دیا۔

اس بم حملے کو مسترد کرتے ہوئے، مریدین اپنیمزاحمت کا مظاہرہ جاری رکھے ہوئے ہیں، اور وہ ہر برس متاثرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے اور ہر قسم کی مذہبی عبادت سے رواداری کے فروغ کے لیے مزار پر جمع ہوتے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500