سلامتی

مزاکرات کی تنسیخ کے بعد افغان طالبان رہنما خود کو کمزور مقام پر دیکھتے ہیں

سلام ٹائمز

26 جولائی کو اعلیٰ طالبان رہنما انڈونیشیا کے ایک دورے سے لطف اندوز ہونے کے لیے قطر سے جا رہے ہیں۔ [فائل]

26 جولائی کو اعلیٰ طالبان رہنما انڈونیشیا کے ایک دورے سے لطف اندوز ہونے کے لیے قطر سے جا رہے ہیں۔ [فائل]

کابل – اتوار (8 ستمبر) کو افغان حکومت، امریکی مفاہمت کنندگان اور طالبان رہنماؤں کے مابین مزاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان رہنما خود کو ایک کمزور مقام پر دیکھ رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے امن مزاکرات کے حتمی لمحات میں کابل میں طالبان حملوں میں 30 سے زائد افراد جاںبحق ہو گئے، جس کی وجہ سے امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز طے شدہ خفیہ ملاقات کی تنسیخ کا اعلان کر دیا۔

ٹرمپ نے ہفتہ (7 ستمبر) کو ٹویٹ کیا، "تقریباً سب کی لاعلمی میں، طالبان کے بڑے رہنما اور، جداگانہ طور پر، افغانستان کے صدر، نے اتوار کو کیمپ ڈیوِڈ میں مجھ سے ملنا تھا۔ وہ آج رات ریاست ہائے متحدہ امریکہ پہنچ رہے تھے۔"

ٹرمپ نے کہا کہ طالبان نے"جعلی برتری قائم کرنے کے لیے" جمعرات (5 ستمبر) کوایک کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

طالبان کے عام ارکان، جن میں سے دو 12 اگست کو پوسٹ کی گئی اس تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں، نے اپنے رہنماؤں کے اقدامات سے متعلق خدشات کا اظہار کیا، یہاں تک کہ چند نے تو واضح طور پر دشمنی کا آغاز کر دیا۔ [فائل]

طالبان کے عام ارکان، جن میں سے دو 12 اگست کو پوسٹ کی گئی اس تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں، نے اپنے رہنماؤں کے اقدامات سے متعلق خدشات کا اظہار کیا، یہاں تک کہ چند نے تو واضح طور پر دشمنی کا آغاز کر دیا۔ [فائل]

5 ستمبر کو کابل میں ایک خود کش حملے کے بعد وزیر خان ہسپتال میں ایک زخمی شخص کا علاج کیا جا رہا ہے۔ یہ ان متعدد حملوں میں سے ایک تھا جو طالبان نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ مزاکرات منعقد ہونے کے متوازی کیے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

5 ستمبر کو کابل میں ایک خود کش حملے کے بعد وزیر خان ہسپتال میں ایک زخمی شخص کا علاج کیا جا رہا ہے۔ یہ ان متعدد حملوں میں سے ایک تھا جو طالبان نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ مزاکرات منعقد ہونے کے متوازی کیے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

افغان وزارتِ داخلہ کے مطابق، اس دھماکے میں کم از کم 10 شہری جاںبحق اور 42 دیگر زخمی ہو گئے۔

ٹرمپ نے ٹویٹ کیا، "کس قسم کے لوگ ہوں گے جو مزاکرات میں اپنے مقام کو مستحکم کرنے کے لیے اتنے لوگوں کو قتل کر دیں؟ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے، انہوں نے صرف حالات مزید خراب کیے ہیں!"

گزشتہ ہفتے کے بڑھتے ہوئے تشدد نے طالبان رہنماؤں کی جانب سے اپنائی گئی واضح حکمتِ عملی کو فاش کر دیا ہےکہ: گروہ کی جانب سے افغان شہریوں کے مسلسل قتل کو مزاکرات کی میز پر افغان حکومت اور اس کے اتحادیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

بظاہر "امن مزاکرات کی تنسیخ" کے ٹرمپ کے اعلان نے افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہٴ خصوصی زلمے خلیل زاد، جنہوں نے طالبان سے، زیادہ تر قطر میں، مزاکرات کے نو ادوار کیے، کی قیادت میں ایک مشکل ترین اور تقریباً ایک برس پر محیط سفارتی عمل کو – کم از کم اب تک کے لیے – اچانک ختم کر دیا ہے۔

طرفین نے تازہ مزاکرات کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ دیا، باوجودیکہ طالبان نے اس سے بھی زیادہ قیمت چکانے کی دھمکی دے دی اور واشنگٹن نے بھی کہا کہ وہ عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی میں رحم کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔

اتوار کو امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ٹیلی ویژن انٹرویوز کے ایک سلسلہ میں مزاکرات کی جانب واپسی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا، لیکن کہا کہ امریکہ طالبان سے "ایک نمایاں عزم" چاہتا ہےاور اس گروہ پر زور دیا کہ وہ افغان صدر اشرف غنی کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے ساتھ مزاکرات سے طویل المدتی انکار کو ترک کر دیں۔

پومپیو نے تنبیہ کی کہ امریکہ طالبان پر "دباؤ میں کمی نہیں لانے والا"، اور کہا کہ امریکی افواج نے صرف گزشتہ 10 روز میں 1,000 سے زائد شورشیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

طالبان کا تاریخ کا مسخ شدہ شمارہ

طالبان اپنے مسخ شدہ نقطہٴ نظر کے ساتھ پیش قدمی جاری رکھے ہوئے امن اور بین الاقوامی معاہدوں کے ساتھ اپنے عزم و استقلال کے داعی ہیں، جبکہ خود کش بم حملوں کا سہرا اپنے سر لیتے اور قتل کرنے پر اتراتے ہیں۔

اتوار کو طالبان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ "مزاکرات کی معطلی ۔۔۔ کا سب سے زیادہ نقصان کسی بھی اور کے بجائے امریکہ کو ہو گا۔"

لیکن کئی دہائیوں سے طالبان کی سفاکی اور دروغ گوئی سے تباہ حال افغان عوام طالبان کے اس دعویٰ سے لا تعلق ہیں۔

52 سالہ میر دل نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان نے "امن کو قبول کر لیا ہوتا، تو انہوں نے اعلانِ جنگ بندی کر دیا ہوتا اور پھر مزاکرات میں پیش رفت ہو پاتی۔"

22 سالہ احمد جواد نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "یہ [طالبان کے لیے ] ایک اچھا موقع تھا، لیکن یہ ضائع ہو گیا کیوں کہ انہوں نے حملے بند نہیں کیے۔"

دیگر نے طالبان کی حکمرانی میں واپس آنے کے خوف سے امن مزاکرات کے تعطل کا خیر مقدم کیا۔

ایک 24 سالہ دکاندار حامد اکبری نے کہا، "میں ذاتی طور پر خوش ہوں کہ امریکہ-طالبان مزاکرات ختم ہو گئے ہیں۔"

انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "اگر طالبان کسی بھی صورت میں واپس آتے ہیں تو ملک تنزلی کی جانب جائے گا، اور افغانستان ایک مرتبہ پھر تنہا ہو جائے گا۔"

اس گروہ کی جانب سے تشدد کے مسلسل استعمال اور عوامی سہولیات کی احمقانہ تباہی، جیسا کہ بجلی یا فون نیٹ ورکس تک رسائی منقطع کر دینے کے بعد طالبان کے لیے عوامی حمایت کم ہو رہی ہے۔

کابل سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار نبی میصدق نے کہا، "معصوم افغانوں کو قتل کرکے اور ملک کو تباہ کر کے، طالبان رعایات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن ان کے حملوں میں اضافہ نے ثابت کر دیا کہ اس گروہ کے ساتھ سمجھوتہ ناممکن نظر آتا ہے۔"

انہوں نے کہا، "وہ ایک بڑا موقع کھو چکے ہیں۔"

طالبان کا کمزور ہوتا مقام

امن مزاکرات کا تعطل طالبان کے لیے ایک حساس وقت پر ہوا۔

کابل سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار سید عالم ہاشمی نے کہا، "ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ طالبان طاقت کے استعمال اور شہریوں کو قتل کر کے اقتدار میں آ جائیں۔"

انہوں نے کہا، "قطر مزاکرات طالبان کے لیے ایک بڑا موقع تھے، لیکن گروہ کے قائدین نے غلط فیصلے کر کے اسے گنوا دیا۔ اب جبکہ مزاکرات منسوخ ہو گئے ہیں اور ان پر عسکری دباؤ بڑھ رہا ہے، ایک خطرناک مستقبل طالبان کا منتظر ہے۔"

عسکری طریق سے طالبان کسی بھی مرکزِ شہریت پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے ہیں کیوں کہ افغان افواج مسلسل اس عسکریت پسند گروہ کے حملوں کو پسپا کر رہی ہیں۔

حالیہ طور پر، طالبان نے 31 اگست کو صوبہ کندوز، کندوز شہر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اس سے اگلے روز انہوں نے ہمسایہ صوبہ بغلان کے صدرمقام پلِ خمری میں ایک آپریشن کا آغاز کر دیا۔

افغان افواج نے گھنٹوں کے اندر درجنوں طالبان عسکریت پسندوں کو ہلاک کرتے ہوئے دونوں حملوں کو پسپا کر دیا۔ کندوز شہر، جس پر 2015 میں مختصر دورانیئے کے لیے طالبان نے قبضہ کر لیا تھا، 2 ستمبر کو واپس معمول پر آگیا۔

وزارتِ دفاع کے نائب ترجمان فواد امان نے کہا، "مزاکرات کی میز پر فتح حاصل کرنے کے لیے کیے گئے تمام تر طالبان حملوں کو افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز [ANDSF] کی جانب سے مکمل پسپائی کا سامنا ہوا۔"

اگرچہ وہروس اور ایران سمیتبیرونی طاقتوں سے اسلحہ حاصل کرتے ہیں، تاہم طالبان اور زیادہ جدید اور بہتر طور پر مسلح افغان افواج کا کوئی مقابلہ نہیں۔

طالبان رہنما بڑھتی ہوئی داخلی لڑائی میں بھی نرغے میں ہیں۔ ایک حالیہ بڑے واقعہ میںطالبان کے ایک دھڑے نے کوئٹہ، پاکستان کے قریب ایک مسجد پر حملے میں طالبان رہنما ملّا ہیبت اللہ اخونزادہ کے بھائی کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ۔

یہ حالیہ قتل دو طالبان دھڑوں کے مابین تشدد کا تازہ ترین واقعہ ہے۔

ہیرات میں مقامی حکام کے مطابق، گزشتہ تین برس کے دوران طرفین سے 300 سے زائد جنگجو ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

افغان افواج کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنے اور اس امر کا ادراک کر لینے کے بعد کہ طالبان کی لڑائی "جہاد نہیں"، سینکڑوں طالبان جنگجو مقامی حکام کے سامنے ہتھیاربھی ڈال رہے ہیں۔

طالبان رہنماؤں کے خفیہ کاروباروں اور امیر ہونے کے منصوبوں کے بارے میں خبریں گردش کرنے پر ان کو بڑی تعداد میں اپنے حامیوں کے پیچھے ہٹنے کا سامنا ہےجبکہ اس گروہ کے عام ارکان کو افلاس، بیماری اور موت کا سامنا ہے۔

یہاں تک کہ اس صورتِ حال کی وجہ سے متعدد ناراض طالبان جنگجو، جو ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں، "دولتِ اسلامیہٴ عراق و شام" (داعش) میں شامل ہو چکے ہیں، ایک ایسا گروہ جو اضافے کے ساتھطالبان ارکان کو قتل کر رہا ہے اور افغانستان بھر میں اس گروہ کے علاقہٴ عملداری پر قبضہ کر رہا ہے۔

[کابل سے سلیمان نے اس رپورٹ میں کردار ادا کیا]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 14

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بہت برا مضمون

جواب

طالبان امریکہ کے اپنے ملک میں سفاک اور امریکہ شریف 40 ملکوں سمیت افغانستان پر چڑھائی کر کے بھی شریف جو چاہے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے

جواب

اس وقت تک کوئی مزاکرات نہیں ہونے چاہیئں جب تک ظالمان معصوم لوگوں کا قتل بند نہیں کرتے.

جواب

مذاکرات کی بھیک تو امریکہ 10 سال سے مانگ رہا تھا ، پاکستان کے تر لے کرتا رہا باقی سب بھاگ کے تھے امریکہ تنہا رہ گیا تھا وہ با عزت واپسی کا راستہ تلاش کررہا تھا آخر پاکستان نے طالبان کو راضی کر لیا طالبان نے امریکہ کی خفیہ منافقت جو ان کو معلوم ہو چکی تھی، کا جواب قندوز فتح کرکے دیا

جواب

یہ ایک غیرجانبدارنہ خبر/مکالہ نہیں

جواب

اگرچہ طالبان قطعاً کوئی صوفی نہیں، تاہم ایک مخصوص نقطہٴ نظر کی حمایت میں حقائق میں مبالغہ آمیزی کی وجہ سے یہ مکالہ اپنی صداقت کھو چکا ہے۔ صحافت حقائق سے کم از کم جانبداری کی متقاضی ہے، جس کا اس مکالہ میں یقیناً فقدان ہے۔

جواب

Mere khial me ye sara jhot he or afghan awm ne taliban ka khirmaqdam kia or unko har pehnaey or khush amdid kaha baqi wo kuch sichuler zehen k log kuch jasos jinki ap bat krte he koi ahmiat nahi baqi aman muzakirat achi thi thora narmi krni chahiey thi ...

جواب

رہنے دیں! پہلے تو یہ بتائیں کہ اس کے لیے کس نے آپ کو پیسے دیے ہیں؟ اگر آپ اپنی دیانت داری بیچ سکتے ہیں تو یقیناً آپ اپنی ماں بھی بیچ سکتے ہیں۔

جواب

طالبان ہمارے طاقتور مذہب پر الزام کے سوا کچھ نہیں۔ کیا ہمارے مذہب میں مسلمانوں کو اپنی منفعت کے لیے ہیروئن اور دیگر منشیات پیدا کرنے کی اجازت ہے۔۔۔ اور بندوقوں کی ثقافت نے بطورِ بنی نوع انسان ہماری اقدار کو کمزور کر دیا ہے۔ شاید کمزور تو نہیں ۔۔۔ لیکن ہمارے مذہب کے لیے ضرر رساں ضرور ہیں

جواب

بےوقوف کے بچےتمہیں کیا پتہ جہاد کا انشاءاللہ طالبان جیت جائے گا اور تم ان منحوس آنکھوں سے دیکھ سکھوں گے

جواب

فنڈڈ مکالہ

جواب

آپکے سارے تجزیے جھوٹ پر مبنی ہے طالبان ایک پاور ہے

جواب

آپ حقائق سے بہت دور جا چکے ہیں۔ آپ کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیوں کہ آپ ٹرمپ کو خدا تسلیم کر چکے ہیں۔ جن کا یقین خدا پر ہے، وہ ایسا تجزیہ نہیں کرتے۔

جواب

Taliban kabhi kamzoor nehi hosaktay, watsap editorial of Western agenda,

جواب