بادغیس -- ہتھیار ڈالنے والے زیادہ سے زیادہ ارکان ان دعوؤں کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں کہ غیر ملکی کردار -- یعنی روس اور ایران -- گروہ کی سرگرمیوں کے لیے سرمایہ اور ہدایات فراہم کرتے رہے ہیں۔
طالبان کے کمانڈر ملا عبدل غفار طوفان نے کہا کہ "ایران، روس اور چین وہ تین ممالک ہیں جو ہمیں مدد فراہم کرتے رہے ہیں"۔
طوفان، 50 طالبان عسکریت پسندوں کے ایک گروہ کے راہنما ہیں جس نے حال ہی میں بادغیس صوبہ میں امن کے عمل میں شمولیت اختیار کی ہے اور انہوں نے اس تقریب کے موقع پر سلام ٹائمز سے بات چیت کی۔
انہوں نے کہا کہ "ہمیں کہا گیا تھا کہ اسکولوں اور مسجدوں کو تباہ کریں، بارودی سرنگیں بچھائیں، سڑکوں کو تباہ کریں اور کسی قسم کی ترقی نہ ہونے دیں"۔
انہوں نے کہا کہ "ہمیں ہمارے اعلی ترین راہنماو،ں نے حکم دیا تھا کہ جتنا زیادہ ممکن ہو تباہی پھیلائیں۔ اگر ہم تباہی پھیلانے سے انکار کرتے تو وہ ہمیں کوئی چیز بھی نہ بھیجتے"۔
بادغیس صوبہ کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس کے ادارے 11 اگست کے ان بیانات کی تفتیش کر رہے ہیں اور وہ کابل کی مرکزی حکومت کے ساتھ اپنے نتائج کو سانجھا کریں گے۔
طالبان کے لیے ایران اور روس کی طرف سے حمایت کے کافی زیادہ ثبوت موجود ہیں مگر طوفان کا چین کے بارے میں دعوی نیا اور غیر تصدیق شدہ ہے۔
بادغیس صوبائی پولیس کے چیف کے ایک ترجمان نقیب اللہ امینی کے مطابق "ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ہمسایہ اور علاقائی ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیاں جنگ میں ملوث ہیں اور بدامنی کی آگ کو ہوا دے رہی ہیں"۔
انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ طالبان جو افغان فورسز کے خلاف جنگ کرتے ہیں ان کے پاس افغانستان کے اندر ہتھیاروں کے کارخانے موجود نہیں ہیں، اس لیے یہ ہتھیار یقینی طور پر ہمسایہ ملکوں سے آتے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "مخالف قوتیں یہ سارے ہتھیار اور اسلحہ کہاں سے حاصل کرتی ہیں جسے وہ افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف استعمال کرتی ہیں، سوائے اس کے کہ انہیں ہمسایہ ملکوں کی انٹیلیجنس سروسز کے ذریعے جو امدد ملتی ہے؟ قدرتی طور پر، یہ افغانستان کے معاملات میں مداخلت کا کھلم کھلا کیس ہے"۔
فروری میں، ہرات صوبہ میں طالبان عسکریت پسندوں کے ایک گروہ نے حکام کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اور کہا تھا کہ ایران نے انہیں تربیت اور ہتھیار فراہم کیے ہیں اور انہیں حکم دیا ہے کہ وہ ترکمانستان-افغانستان -پاکستان- انڈیا (ٹاپی) پائپ لائن کی افتتاحی تقریب پر حملہ کریں۔
صرف دو ماہ بعد ہی اپریل میں، طالبان کے جنگجوؤں کے ایک اور گروہ نے ہرات صوبہ میں ٹاپی پائپ لائن پر حملہ کرنے کے ایرانی حکم کی خلاف ورزی کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی بجائے اپنے ہتھیار ڈال دیے اور افغانستان کی قیادت میں ہونے والے امن کے عمل میں شمولیت اختیار کر لی۔
مئی میں، طالبان کے "ذہین ترین اور قابل ترین نوجوان لڑاکوں" نے ایران میں عسکری تربیت کے کیمپوں میں جانا شروع کیا۔
روسی اور ایرانی ہتھیار
بادغیس کی صوبائی کونسل کے چیرمین عبدل عزیز بائک نے کہا کہ دوسرے ممالک کے ہاتھوں کی صناعی بادغیس میں بدامنی پیدا کر رہی ہے- -زیادہ تر روس اور ایرانی ہتھیار جنہیں طالبان کو فراہم کیا جاتا ہے -- شہریوں کے لیے "تشویش کا باعث" ہیں۔
انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "ہم امید کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت بادغیس صوبہ میں ایک قابل وفد بھیجے تاکہ اس مسئلے کا مکمل طور پر جائزہ لیا جا سکے اور تمام تفصیلات کی شناخت کی جا سکے"۔
بادغیس کے ایک 28 سالہ سول سوسائٹی کے سرگرم کارکن عبدل رزاق صدیقی نے کہا کہ "ہمسایہ اور علاقائی ممالک کی طرف سے طالبان کو فراہم کی جانے والی امداد پریشان کن ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "ہم قومی اتحادی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے مداخلت کے ایسے واقعات کو روکے خصوصی طور پر جب کہ ایسا ان ممالک کی طرف سے کیا جا رہا ہو جو ہمارے ملک کو تباہ کر رہے ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کو مکمل ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں"۔
کچھ ممالک جو افغانستان کا دوست ہونے کا دعوی کرتے ہیں "افغان حکومت کے دشمنوں سے تعاون کرتے ہیں، اپنے علاقوں میں طالبان کو پناہ فراہم کرتے ہیں، طالبان کے زخموں کا علاج کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ"۔ یہ بات بادغیس کے ایک اور سول سوسائٹی کے سرگرم کارکن، 37 سالہ جنیداللہ عاشقانی نے کہی۔
انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "بین الاقوامی میدان میں یہ ممالک خود کو افغانستان کا دوست کہتے ہیں مگر حقیقت میں وہ پس منظر میں حکومت کو ناکام بنانے اور افغانستان کے قومی مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں"۔
امن کے عمل میں شامل ہونے پر طالبان کی حوصلہ افزائی کرنے والا فتوی
بادغیس صوبائی امن کمیٹی کے حکام کے مطابق، بادغیس میں طالبان کے گروہ کی طرف سے امن کے امن میں شامل ہونے کے فیصلے کی مسلمان علماء کی طرف سے افغان جنگ کو حرام قرار دینے والے فتوی نے حوصلہ افزائی کی تھی۔
بادغیس صوبائی امن کونسل کے چیرمین عبدل خلیل اچکزئی کے مطابق، طالبان کو سمجھ آ گئی کہ ان کی جنگ ناجائز ہے اور اسلام میں ناقابلِ قبول ہے۔
انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "ہم طالبان کو حکومت کے ساتھ اکٹھا کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کر رہے ہیں، ہمسایہ ملک طالبان کی سوچ کو بدلنے کے لیے اتنی ہی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور انہیں افغان حکومت اور عوام کے خلاف بھڑکا رہے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "درحقیقت، وہ طالبان کو امن کے عمل میں شامل ہونے سے روکنے کی اپنی بھرپور کوشش کرتے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغان جنگ میں دوسرے ملک ملوث ہیں اور ان ممالک کی انٹیلیجنس سروسز افغان عوام کے قتل عام کا سسب بنی ہیں"۔
"کچھ گروہ امن کے عمل میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں، تاہم وہ حکومت کے ساتھ امن کے عمل میں اس دباؤ کے باعث شامل نہیں ہو سکتے جو ان پر ان کے راہنما ڈالتے ہیں (جو غیر ملکی احکامات پر عمل کر رہے ہیں)"۔
افغان مفادات میں مداخلت
ہرات صوبہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار عبدل قادر کمال نے کہا کہ "اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ روس اور ایران دونوں افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ ان دونوں ملکوں اور افغانستان کے درمیان تعلق حکومتوں کے درمیان تعلق کی شکل میں نہیں ہے۔ اس کے بالکل برعکس، وہ دہشت گرد گروہوں اور ہتھیاروں کے نیٹ ورکس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تاکہ علاقے میں اپنے مفادات کو محفوظ بنا سکیں"۔
انہوں نے کہا کہ "ایران اور روس امریکہ کے خلاف بُغض رکھتے ہیں اور وہ ہر ممکن طریقے سے افغانستان میں امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران "بین الاقوامی برادری اور امریکہ کی طرف سے اس پر بڑھتے ہوئے دباو" کا بدلہ لے رہا ہے۔
ہرات صوبہ کے سول سوسائٹی کے ایک سرگرم رکن سید اشرف سعادت نے کہا کہ افغانستان میں جنگ کو جاری رکھنا ایران اور روس کے اقتصادی مفادات میں بھی ہے۔
انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "مبینہ طور پر ایران اور روس افغانستان میں ہتھیار اور منشیات اسمگل کرنے میں ملوث ہیں۔ اگر طالبان نے امن کے عمل میں شمولیت اختیار کر لی تو جنگ ختم ہو جائے گی۔ اس لیے یہ ملک باغی گروہوں کو امن کے عمل میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتے"۔
انہوں نے کہا کہ "روس کے مغربی ممالک کے ساتھ گہرے تنازعات ہیں جبکہ افغانستان کے اس کے بر عکس مغربی ممالک سے بہت سے معاہدے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "ایران اور روس کے مفادات جنگ کو جاری رکھنے کی حمایت میں ہیں اور اس کے ساتھ ہی دہشت گردوں کی حمایت کو جاری رکھنے میں۔ اسی لیے طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہ افغانستان میں امریکی مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں"۔
یہ میری امریکہ اور اقوامِ متحدہ کو رائے ہے کہ طالبان کے ساتھ جنگ کے لیے 17 برس ایک طویل عرصہ ہے، لیکن آخر میں نتیجہ یہ ہے کہ طالبان 70 فیصد افغانستان پر قابض ہیں اورافغان حکومت کے پاس 30 فیصد ہے۔ یہ واضح ہے کہ جنگ کوئی حل نہیں، امن آنے دیں اور مکمل نتائج آئیں گے۔ ورنہ دن بدن زیادہ رکاوٹیں بنیں گی۔ امریکہ کیوں واپس جا کر طالبان اور افغان حکومت سے مزاکرات کر رہا ہے اور اسی کو حل سمجھ رہا ہے۔ کیوں کہ زیادہ تر لوگ طالبان کو پسند کرتے ہیں، یہ آسان ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان انتخابات کرا کے حل نکال لیا جائے، ورنہ علاقہ میں امن نہیں آ سکتا۔ (طاہر محمود)
جوابتبصرے 1