کوئٹہ/کابل – سیکیورٹی تجزیہ کاروں اور عہدیداران کا کہنا ہے کہ صرف مل کر کام کر کے ہی پاکستان اور افغانستان ایران کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور خطے میں اس کے مفسدانہ رسوخ کا انسداد کر سکتے ہیں۔
اس جارحیت کی تازہ ترین مثالوں میں ایران کی جانب سے طالبان اکثریت پسندوں کے ایک گروہ کی تربیت اور فراہمیٴ مالیات شامل ہیں، جنہوں نے 23 فروری کو صوبہ ہرات میں ترکمانستان- افغانستان- پاکستان-بھارت (تاپی) قدرتی گیس پائپ لائن -- جس کی تہران شدید مخالفت کرتا ہے— کے افغان جزُ کی افتتاحی تقریب پر حملے کا حکم دیا تھا۔
پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عبّاسی اور افغان صدر اشرف غنی تقریب میں شرکت کرنے والے معززین میں شامل تھے۔
یہ منصوبہ اس وقت سامنے آیا جب طالبان گروہ نے اپنے ایرانی منصوبہ سازوں کی حکم عدولی کرتے ہوئے مقامی حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
آئی آر جی سی کی پشت پناہی رکھنے والی ضمنی جنگ کی ملیشیا
ڈھٹائی پر مبنی اس چال کے پس منظر میں اسلامی انقلابی محافظ افواج (آئی آر جی سی) کی پشت پناہی رکھنے والی ضمنی جنگ لڑنے والی ملیشیا مسلسل ہزاروں پاکستانی اور افغان نوجوانوں کو صرف تہران کے فرقہ ورانہ اہداف کو مستحکم کرنے کے مقصد سے لڑی جانے والی جنگیں لڑنے کے لیے راغب کر رہی ہیں۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے اور انسدادِ دہشتگردی میں شریک پاکستانی وزارتِ دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اپنا نام صیغہٴ راز میں رکھے جانے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پاکستان میں آئی آر جی سی زینبیون بریگیڈ کے ذریعے شعیہ جنگجووٴں کو بھرتی کر رہی ہے، جبکہ افغانستان میں فاطمیوں ڈویژن افغان شعیہ جنگجووٴں کو بھرتی کر رہی ہے۔"
عہدیدار نے کہا، "یہ شعیہ تنخواہ دار سپاہی براہِ راست ایرانی وزارتِ دفاع کے ساتھ منسلک ہیں۔"
"ہماری اطلاعات ہیں کہ 12,000 سے زائد پاکستانی اور افغان شعیہ عسکریت پسند دمشق، حلب، دارا، حما اور شام کے چند دیگر مقامات پر [شامی]صدر [بشار]الاسد کی حمایت میں لڑ رہے ہیں۔"
افغان عہدیداران نے بھی غیر ملکی جنگوں میں لڑنے کے لیے ایران کی جانب سے پاکستانی اور افغان شہریوں کی بھرتیوں پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔
صوبہ ہلمند کے سابق نائب گورنر محمّد جان رسول یار نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ایران نے چار برس قبل پہلی مرتبہ مکمل طور پر افغان اور پاکستانی شعیہ نوجوانوں پر مشتمل ملیشیا تشکیل دیے۔ [ایران] نے اپنے سیاسی اور عسکری مقاصد کے حصول کی غرض سے ایسا کیا۔"
فرقہ واریت کو تحریک دینا
پاکستان اور افغانستان، ہر دو میں تجزیہ کاروں اور حکام کا کہنا ہے کہ ایران کے مقاصد میں سے ایک خطے میں فرقہ ورانہ فساد کو بھڑکانا ہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے اساسی اعلیٰ دفاعی تجزیہ کار میجر (ریٹائرڈ) محمّد عمر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "افغانستان اور پاکستان، ہر دو میں شعیہ مسلمان جاری فرقہ ورانہ تقسیم اور تنازع سے خوفزدہ ہیں۔"
انہوں نے کہا، "ایران بنیادی طور پر اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس خطے میں شعیوں کے تحفظ کا ڈھونگ رچا رہا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ زمینی حقائق ایک مطلق مختلف کہانی بتاتے ہیں۔
پاکستانی انٹیلی جنس اور وزارتِ دفاع کے ایک سبکدوش اعلیٰ عہدیدار باسط جیلانی نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ایران کی جانب سے پاکستان اور افغانستان میں بھرتی کیے گئے شعیہ خطے بھر میں تنازعات میں شریک ہیں، اور مضبوط شواہد ہیں کہ آئی آر جی سی شعیہ عسکریت پسندوں کو مکمل تربیت فراہم کر رہی ہے۔"
انہوں نے کہا، "آئی آر جی سی ان شعیہ گروہوں کو پیشہ ور ضمنی جنگی ملیشیا میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایران جغرافیائی-سیاسی مقصد اور خطے میں فرقہ ورانہ تناوٴ [کو تقویت دینے کے لیے] اپنی ضمنی جنگی ملشیا، زینبیون بریگیڈ اور فاطمیون ڈویژن کی تشکیلِ نو کر رہا ہے۔"
جیلانی نے کہا کہ شامی جنگی محاذ پر لڑتے ہوئے روزانہ پاکستانی اور افغان شعیوں کی ایک بڑی تعداد اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں، انہوں نے مزید کہا، "مارے جانے والے پاکستانی اور افغان جنگجووٴں میں سے اکثر کی ۔۔۔ ایران میں تدفین کی جاتی ہے۔"
کمزور نوجوانوں کی بھرتی
اسلام آباد کی نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں افغان سیکورٹی کے اسکالر اور سیاسیات اور خارجہ پالیسی کے پروفیسر رشید احمد نے بتایا، افغانستان میں انتہائی غربت اور ملازمتوں کے مواقع کی کمی ہزاروں افغان نوجوانوں کو ایران کے ہاتھوں فاطمیون ڈویژن میں [جنگ کے لئے] استعمال ہونے پر راغب کر رہے ہیں۔
"فاطمیون ڈویژن زیادہ تر بھرتیاں افغانستان کے غریب ترین صوبوں میں سے ایک، بامیان کے رہائشیوں کی کر رہا ہے،" انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا۔ "شیعہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افغان ایرانی مقاصد کے لئے شام میں جنگ کررہے ہیں۔"
انہوں نے بتایا، "غیر ملکی شیعہ ملشیا شام کی جنگ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، اور اب خاص طور پر افغانستان میں سیاسی قیادت، خطہ میں ایرانی حکمت عملی کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہی ہے۔"
انہوں نے مزید بتایا، "افغان ارکان پارلیمنٹ نے بھی صدر اشرف غنی سے معاملے پر ایرانی حکومت سے بات کرنے کے لئے کہا ہے۔"
احمد نے بتایا، شام اور عراق میں جنگ کے لئے ایران کی شیعہ مسلمانوں کی بھرتی، مقامی مسلم آبادیوں کی فرقہ وارانہ تقسیم اور بنیاد پرستی پر منتج ہورہی ہے۔
انہوں نے بتایا، "ایران کی مداخلت کے خلاف پاکستانی اور افغان حکومتوں کو سرکاری طور سے اٹھ کھڑا ہونا چاہیئے۔"
پاکستان، افغانستان میں ایرانی عزائم کی روک تھام
اگرچہ افغان اور پاکستانی شیعہ عسکریت پسندوں نے برسوں شام میں جنگ کی ہے، بہت سوں کو یقین ہے کہ ایران نے ان قوتوں کو صرف شام میں جنگ کے لئے نہیں تخلیق کیا ہے، رسول یار نے بتایا۔ "بلکہ [ایران] اپنے مستقبل کے اہداف کے حصول کے لئے خطے میں پراکسی جنگوں میں انھیں قربانی کے جانور کے طور پر استعمال کرے گا۔"
انہوں نے بتایا، کچھ کو خوف ہے کہ ایران کے مقاصد میں شیعہ ملیشیا کو افغانستان اور پاکستان میں لانا ہے۔
انہوں نے بتایا، افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کو مشترکہ طور ایران کے خلاف ایک موقف اپنانا چاہیئے، "اس کے علاوہ، دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے تعاون سے ایران کو افغان اور پاکستانی نوجوانوں کے آئی آر جی سی پراکسیز کے طور پر استعمال کرنے سے روکنا چاہیئے۔"
کابل سے افغان وولیسی جرگہ (ایوان زیریں) کے ایک رکن داؤد کلاکانی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ایران کا نوجوان افغان تارکین وطن کا شام میں عسکریت پسندوں کے طور پر استعمال تمام بین الاقوامی اصولوں اور قواعد کے خلاف ہے۔"
"ایران نے خطے میں ایک اہم پراکسی جنگ کا آغاز کردیا ہے،" انہوں نے بتایا۔ "یہ ایک بڑی تشویش ہے کہ کسی دن [ایران] فاطمیون ڈویژن کے عسکریت پسندوں کو افغانستان اور اس کے مفادات کے خلاف استعمال کرے گا۔"
انہوں نے بتایا، "اس سے پہلے کہ نام نہاد فاطمیون ڈویژن افغانستان کے لئے مشکلات کا ایک بڑا ذریعہ بن جائے، [افغان] حکومت کو فوری طور سے ایران کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیئے۔"
جب سے خمینی کئی برسوں تک فرانس میں جلاوطنی میں رہنے کے بعد اقتدار میں آئے، (فرانس میں جلاوطنی بھی ایک مذاق ہے) مشرقِ وسطیٰ میں پریشانی کا آغاز ہو گیا۔ یہ خود مشتہر ولی دراصل درپردہ ایک مجرم تھا جس نے مذہبی شخصیات سمیت ایران میں متعدد افراد کو قتل کیا۔ ایران میں شعیہ شدت پسندی جاری رہنے سے ہر ہمسایہ ملک، یہاں تک کہ اس سے بہت دور افریقہ کے ممالک میں بھی مسائل پیدا کیے۔ شعیہ شدت پسندی نے مسلمان برادریوں کو تقسیم کر دیا، انتشار وغیرہ۔ تیل کے علاوہ انہوں نے سعودی عرب کے خلاف ادلے کے بدلے کے مصداق زیارتوں سے ایک اور ذریعہٴ آمدنی بنا لیا۔ یمن، افغانستان، پاکستان، شام، لبنان، عراق، افغانستان تمام خمینی- خامنہ ای طاعون سے متاثر ہوئے۔ لیکن اس میں ایک لطیفہ بھی ہے۔ عراق اور افغانستان میں ایران نے امریکہ کی مدد کی اور یمن میں اس نے فی الحقیقت ایک جنگ شروع کر دی۔ شعیہ شدت پسندی اس دنیا کا کیا ہی بداندیش سرطان ہے۔ ایران میں لوگ ایک مسلسل قید میں زندہ ہیں اور وہ احتجاج تک نہیں کر سکتے، ورنہ پاسدار انہیں فی الحقیقت مار ڈالیں گے۔
جوابتبصرے 2
پھر سعودی شاہی خاندان کے بارے میں کیا جو خطے میں داعش جیسے بدنام دہشتگردوں کو مالیات فراہم کر کے ٹانگ اڑا رہے ہیں، یمن اور شام میں معصوم لوگوں کے قتل کا کیا، کسی میں ان کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں؟؟؟؟!
جوابتبصرے 2