سلامتی

طالبان کے مطابق ایران نے افغانستان میں عباسی کی تقریب پر حملے کا حکم دیا

از سلیمان

طالبان عسکریت پسندوں کا ایک گروہ جسے ایران نے ترکمانستان-پاکستان-انڈیا (ٹاپی) پائپ لائن کے افغان حصے کی افتتاحی تقریب پرحملہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، نے ہرات صوبہ میں حکام کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ]سلیمان[

ہرات، افغانستان -- طالبان عسکریت پسندوں کا ایک گروہ جسے ایران نے سرمایہ اور تربیت فراہم کی تھی، کو ایران کے فوجی افسران نے حکم دیا کہ وہ افغانستان میں اس تقریب پر حملہ کریں جس میں پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ ہفتے شرکت کی تھی۔

یہ انکشافات گروہ کی طرف سے اپنے ایرانی سرپرستوں کے حکم کی خلاف ورزی کرنے اور مقامی حکام کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد سامنے آئے۔

وزیراعظم عباسی، انڈیا کے امورِ خارجہ کے سیکٹری سری ایم جے اکبر اور ترکمانستان کے صدر گربانگلی بردیمحمدوف افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ ہرات صوبہ میں 23 فروری کو، قدرتی گیس کی ترکمانستان-پاکستان-انڈیا (ٹاپی) پائپ لائن کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔

ہتھیار ڈالنے والے طالبان کے 10 رکنی گروہ کے کمانڈر، محمد ایوب علی زئی نے کہا کہ ایران نے انہیں تربیت دی اور انہیں ہتھیار فراہم کیے اور گروہ کو حکم دیا کہ وہ تقریب اور پائپ لائن پر حملے کریں۔

پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی (دائیں)، افغانستان کے صدر اشرف غنی، ترکمانستان کے صدر گربنگولی بردیمحمدوف اور انڈیا کے امورِ خارجہ کےسیکٹری سری ایم جے اکبر (بائیں) 23 فروری 2018 کو ہرات صوبہ میں ٹاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی افتتاحی تقریب کے دوران نظر آ رہے ہیں۔ ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں نے کہا کہ ایران نے انہیں اس تقریب پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ]افغان صدارتی محل[

پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی (دائیں)، افغانستان کے صدر اشرف غنی، ترکمانستان کے صدر گربنگولی بردیمحمدوف اور انڈیا کے امورِ خارجہ کےسیکٹری سری ایم جے اکبر (بائیں) 23 فروری 2018 کو ہرات صوبہ میں ٹاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی افتتاحی تقریب کے دوران نظر آ رہے ہیں۔ ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں نے کہا کہ ایران نے انہیں اس تقریب پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ]افغان صدارتی محل[

ہرات کے صوبائی گورنر محمد آصف رحیمی سابقہ طالبان عسکریت پسندوں سے 21 فروری کو ہرات شہر میں مل رہے ہیں۔ ]سلیمان[

ہرات کے صوبائی گورنر محمد آصف رحیمی سابقہ طالبان عسکریت پسندوں سے 21 فروری کو ہرات شہر میں مل رہے ہیں۔ ]سلیمان[

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "ہم جنگی تربیت حاصل کرنے کے لیے سرحد کے پار ایرانی علاقے میں گئے تھے۔ ایران نے ہمیں رقم، ہتھیار اور سامان مہیا کیا تھا تاکہ ہم افغان سیکورٹی فورسز کے ساتھ جنگ کر سکیں"۔

علی زئی نے کہا کہ "سچائی کا احساس ہونے کے بعد اور ٹاپی منصوبے کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرنے کے لیے ہم نے لڑائی ترک کر دی اور حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے"۔

انہوں نے کہا کہ "جہاں تک طالبان میں شامل ہونے والوں کا تعلق ہے، ایران نے انہیں پانچ، 10 اور 100 کے گروہوں میں ایرانی علاقے میں منتقل کرتا ہے جہاں انہیں تین ماہ کی عسکری تربیت دی جاتی ہے"۔

علی زئی نے کہا کہ "ایران میں طالبان کے جو ارکان تربیت حاصل کرتے ہیں وہ ہاسٹلوں میں رہتے ہیں۔ وہ اس ملک میں نہایت آرم سے رہتے ہیں اور آزادی سے ایرانی کے مخلف شہروں میں 15 دنوں تک گھومنے بھی جا سکتے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "جب ان کی تربیت مکمل ہو جاتی ہے تو ایران انہیں واپس افغانستان بھیج دیتا ہے مگر اس سے پہلے انہیں سیکورٹی فورسز سے لڑنے کے لیے رقم اور فوجی سامان فراہم کیا جاتا ہے"۔

ٹاپی پائپ لائن 1,840 کلومیٹر طویل ہے جو ترکمانستان سے انڈیا تک، افغانستان کے علاقے سے گزر کر جائے گی اور توقع ہے کہ یہ ترکمانستان کی دیوہیکل گلخنیش گیس فیلڈ سے 2020 کے آغاز میں قدرتی گیس کو پمپ کرنا شروع کر دے گی۔

تجزیہ کاروں نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ٹاپی ایران کے افغانستان میں دوسرے منصوبوں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔

ایرانی تخریب کاری

ہرات میں 606ویں انصار پولیس زون کے انٹیلیجنس ڈائریکٹر محمد نعیم غیور نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "طالبان کے اس گروہ کو (ایران کی طرف سے حکم کردہ) مشن دیا گیا تھا کہ وہ دہشت گردانہ حملوں کا ایک سلسلہ شروع کریں تاکہ ٹاپی منصوبے کی افتتاحی تقریب کے لیے مشکلات پیدا کی جا سکیں"۔

ہرات گورنر کے ایک ترجمان جیلانی فرہاد نے کہا کہ "طالبان کے ان ارکان کو اس سچائی کا احساس ہو گیا کہ: جنگ ان کے لیے اور اس کے ساتھ ہی افغانستان کے لیے نقصان دہ ہے اور یہ ان ممالک کے مفاد میں ہے جو طالبان کی حمایت کرتے ہیں"۔

ہرات شہر میں ایران کے کونسل جنرل محمود افخمی رشیدی نے طالبان کے عسکریت پسندوں کی طرف سے کیے جانے والے اس دعوی کی تردید کی ہے۔

فارس نیوز ایجنسی نے افخمی کے بیان سے اقتباس کرتے ہوئے کہا کہ "یہ دعوے بالکل غلط ہیں"۔

تاہم، شواہد صاف طور پر، افغانستان کی حکومت اور اس کے مفادات کے خلاف طالبان کے لیے ایران کی مسلسل حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

اس ماہ کے آغاز میں، افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کے سربراہ معصوم سٹنکزئی نے کہا تھا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ایران طالبان کو امداد فراہم کر رہا تھا۔

سٹنکزئی نے بی بی سی فارسی کے ساتھ 4 فروری کو ایک انٹرویو میں کہا کہ "اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ روس اور ایران طالبان کو کچھ امداد فراہم کر رہے ہیں مگر اس بارے میں معلومات کی زیادہ اشاعت نہیں کی گئی ہے"۔

سٹنکزئی ایسے الزامات لگانے والے اعلی ترین عہدہ رکھنے والے افغان اہلکار ہیں۔

افغانستان کے صوبہ فراہ میں بھی حکام نے اس ماہ ایران پر الزام لگایا تھا کہ وہ علاقے میں عسکریت پسندوں کو تربیت اور ساز و سامان مہیا کر رہا ہے۔

فراہ صوبائی کونسل کے ایک رکن داد اللہ قانی نے تو یہاں تک کہا کہ ایران کی جنگی افواج کو افغان سرزمین پر تعینات کیا گیا ہے۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "ایسے ایرانی جرنل تھے جو فراہ صوبہ آئے تاکہ طالبان کو تربیت دے سکیں اور جنگ کی نگرانی اور کنٹرول کر سکیں۔ انہوں نے جنگ تک میں شرکت کی"۔

یہ دو مثالیں صرف ایسے دو حالیہ شواہد ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ ایران، نہایت سرگرمی سے افغانستان کی سیکورٹی اور خودمختاری کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

طالبان سے 'غیر ملکی مفادات کے لیے کام نہ کرنے' کا مطالبہ

اس گروہ کی طرف سے ہتھیار ڈالنے اور امن کے عمل میں شامل ہونے کا فیصلہ تقریبا اسی وقت آیا ہے جب ملا محمد رسول کے وفادار طالبان کے ایک گروہ نے ٹاپی پائپ لائن کے لیے اپنی حمایت کا عہد کیا۔

طالبان کے ترجمان ہونے کا دعوی کرنے والے قاری یوسف احمدی کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان "اس منصوبے کو ملک کے اقتصادی بنیادی ڈھانچے کا اہم جزؤ سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اس کے مناسب نفاذ سے افغانستان کے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا"۔

وائس آف امریکہ کے مطابق، طالبان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ "ہم اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں میں اس منصوبے کے لیے سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے اپنے تعاون کا اعلان کرتے ہیں"۔

ایک اور سابقہ طالبان عسکریت پسند صوفی عظیم جنہوں نے امن کے عمل میں شمولیت اختیار کر لی ہے، سلام ٹائمز کو بتایا کہ "جنگ ایسے ہمسایہ ممالک کو فائدہ پہنچاتی ہے جو افغانستان کی تباہی چاہتے ہیں۔ یہ ہی وہ وجہ تھی جس کی وجہ سے ہم نے جنگ چھوڑ دی اور ہم دوسرے طالبان سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غیر ملکی مفادات کے لیے کام کرنا چھوڑ دیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 5

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران اس قسم کی دہشتگردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

جواب

Hahaha... Iran kani dehshatgardi nai krta... Ye to bure mazhab wakom ka kam hai dehashatgardi... So ye news 100 % ghalati hai...

جواب

ہمارے ہمسائے کی جانب سے کیا خوب تحفہ ہے۔ شرم آنی چاھئے ایران

جواب

اللہ تعالیٰ پیارے ملک افغانستان میں امن لائے!

جواب

بہت اعلی زبردست

جواب