کابل – مقامی حکام کا کہنا ہے کہ ایرانی منصوبہ سازوں نے گزشتہ تین ماہ میں دوسری مرتبہ طالبان کے زریعے افغان صوبے ہرات میں ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت قدرتی گیس پائپ لائن تاپی منصوبے پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اور ایک مرتبہ پھر طالبان جنگجوؤں نے ایرانی احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے ہتھیار ڈال کر افغان امن عمل کا حصہ بننے کو ترجیح دی۔
طالبان کے سات رکنی گروہ کے سربراہ احمد نے ہرات میں 22 اپریل کو پریس کانفرنس کے دوران بتایا، "ایران نے ہمارے کمانڈروں کو ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کیا اور انہیں تاپی منصوبے کو تباہ کرنے کے احکامات دیے جس کے بعد ہمارے اعلیٰ کمانڈروں نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم صادر کیا۔"
اس نے بتایا، "ہم نے احکامات ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ ہماری پوری قوم تاپی منصوبے سے مستفید ہو گی۔" "اس کے برعکس ہم نے سیکیورٹی حکام سے رابطہ کیا اور افغان امن عمل میں شریک ہو گئے۔"
کابل اور اسلام آباد میں موجود ایرانی سفارت خانوں نے بارہا درخواست کے باوجود ان الزامات کا جواب نہیں دیا۔
پہلا منصوبہ وزیراعظم عباسی کی تقریب کو نشانہ بنانا تھا
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایران نے مبینہ طور پر تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کی ہے۔اس سے قبل 21 فروری کو طالبان کے دس رکنی گروہ نے افغان صوبے ہرات میں حکام کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد ایران کے انہی عزائم کا انکشاف کیا۔
طالبان کمانڈر محمد ایوب علیزئی نے بتایا کہ ایران نے انہیں عسکری تربیت فراہم کی، ہتھیار دیے اور تاپی منصوبے کی افتتاحی تقریب اور پائپ لائن کو نشانہ بنانے کی ہدایت کی۔
پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، افغان صدر اشرف غنی سمیت دیگر حکام اس تقریب میں شریک تھے۔
1840 کلومیٹر طویل تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ افغانستان سے گزر کر ترکمانستان کو بھارت سے جوڑے گا۔ مذکورہ منصوبہ 2020 کے آغاز سے ترکمانستان کے انتہائی بڑے گالکنش گیس فیلڈ سے قدرتی گیس کی فراہمی شروع کر دے گا۔
تہران تاپی منصوبے کی مخالفت پر بضد ہے اور ایرانی پائپ لائن کے علاوہ دیگر منصوبوں کی تکمیل کی امیدوں کیلئے براہ راست خطرہ بنا ہوا ہے۔
علیزئی نے اس وقت سلام ٹایمز کو بتایا، "ہم نے سرحد پار ایرانی علاقے میں جنگجو تربیت حاصل کی۔" ایران نے ہمیں رقم، ہتھیار اور سامان فراہم کیا تاکہ ہم افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف لڑ سکیں۔"
علیزئی نے بتایا، "سچ کا احساس ہونے کے بعد اور تاپی منصوبے کی حمایت میں ہم نے لڑائی ترک کر دی اور ہتھیار ڈال دیے۔"
ایران کی دوہری چال
پاکستان کے دفاعی اور انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کے حالیہ دورہ پاکستان سمیت ایران کے دیگر سفارتی رابطوں سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کی بحالی میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
وزیرخارجہ ظریف نے پاکستان کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ ایران اور پاسبان انقلاب (آئی آر جی سی) پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے۔
تاہم تاپی منصوبے کو نشانہ بنانے کے منصوبے کے علاوہایرانی پاسبان انقلاب کی حمایت یافتہ پراکسی عسکریت پسند تنظیمیں ہزاروں پاکستانی اور افغان نوجوانوں کو لڑائی میں حصہ لینے کیلئے بدستور ورغلا رہی ہیں اور اس کا مقصد تہران کے فرقہ وارانہ مقاصد کو مستحکم کرنا ہے.