سلامتی

ایک دھڑے کی جانب سے امیر کے بھائی کی ہلاکت کے دعوے سے افغان طالبان کے اندر رخنے وسیع ہو گئے ہیں

از عمر

مبینہ طور پر طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے حامیوں کی جانب سے بھیجے گئے، تین ممکنہ خودکش بمباروں کے پکڑے جانے کے بعد ملا منان نیازی نامعلوم تاریخ کی ایک فوٹو میں اپنے پیروکاروں سے خطاب کرتے ہوئے۔ [تصویر بشکریہ ملا منان نیازی]

مبینہ طور پر طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے حامیوں کی جانب سے بھیجے گئے، تین ممکنہ خودکش بمباروں کے پکڑے جانے کے بعد ملا منان نیازی نامعلوم تاریخ کی ایک فوٹو میں اپنے پیروکاروں سے خطاب کرتے ہوئے۔ [تصویر بشکریہ ملا منان نیازی]

ہرات -- طالبان کے ایک الگ ہونے والے دھڑے نے کوئٹہ، پاکستان کے قریب ایک مسجد پر حملے کے دوران طالبان کے سپریم کمانڈر کے بھائی کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

چار افراد، بشمولطالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کے بھائی، حافظ احمد اللہ، 16 اگست کو کچلاک میں ایک حملے میں مارے گئے تھے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق، طالبان نے حملے کی تحقیقات کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

اسلامی امارت کی ہائی کونسل، طالبان کا دھڑا جس کی سربراہی ملا محمد رسول کر رہے ہیں، نے کہا کہ اس حملے کی پشت پناہی اس نے کی تھی۔

17 اگست کو مقتول طالبان رہنماء ملا محمد اعظم کی لاش کوئٹہ کے قریب کچلاک کے علاقے میں بذریعہ ایمبولنس لائی جا رہی ہے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

17 اگست کو مقتول طالبان رہنماء ملا محمد اعظم کی لاش کوئٹہ کے قریب کچلاک کے علاقے میں بذریعہ ایمبولنس لائی جا رہی ہے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

سلام ٹائمز کی ایک ویڈیو سے لیے گئے سکرین شاٹ میں، طالبان کے الگ ہونے والے دھڑے کے نائب کمانڈر، ملا منان نیازی کے ماتحت طالبان جنگجوؤں کو 10 نومبر 2018 کو صوبہ ہرات میں ایک نامعلوم مقام پر دکھایا گیا ہے۔ [فائل فوٹو]

سلام ٹائمز کی ایک ویڈیو سے لیے گئے سکرین شاٹ میں، طالبان کے الگ ہونے والے دھڑے کے نائب کمانڈر، ملا منان نیازی کے ماتحت طالبان جنگجوؤں کو 10 نومبر 2018 کو صوبہ ہرات میں ایک نامعلوم مقام پر دکھایا گیا ہے۔ [فائل فوٹو]

9 جولائی 2015 کو طالبان کے بانی امیر ملا محمد عمر کی وفات کی خبر سامنے آنے کے کچھ ہی دیر بعد، جو کہ ان کی اصل تاریخِ وفات سے دو سال بعد باہر آئی تھی، طالبان کے مابین اندرونی اختلافات شروع ہو گئے تھے۔

ہائی کونسل جو کہ محمد رسول کی سربراہی میں ہزاروں جنگجوؤں پر مشتمل ہے، ہیبت اللہ کے پیش رو، ملا اختر محمد منصور کو امیر بنائے جانے کے خلاف احتجاجاً، طالبان کے مرکزی گروہ -- کوئٹہ شوریٰ -- سے الگ ہو گئی تھی اور اپنے آپ کو ایک آزاد جماعت قرار دیا تھا۔

سلام ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں، ہائی کونسل کے نائب امیر ملا منان نیازی نے کہا، "ہمارے کارکن ملا ہیبت اللہ کی نگرانی کرتے رہے ہیں، اور یہ حملہ ان لوگوں کی جانب سے کیا گیا تھا جو ماضی میں ملا ہیبت اللہ کے قریب رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "حملے کی وجہ یہ تھی کہگروہ کے رابطے روس اور ایران کے ساتھ ہیںجو کہ اسلامی امارت یا افغان عوام کے حق میں نہیں ہیں۔ ہیبت اللہ کا کٹھ پتلی گروہ اسلامی امارات کے تمام پیروکاروں کی جانب سے زیرِ عتاب ہے اور اپنی ساکھ گنوا چکا ہے۔"

نیازی نے دعویٰ کیا کہ ہیبت اللہ خود پاکستان میں ایک فوجی چھاؤنی میں مقیم ہے۔

انہوں نے کہا، "چار برس قبل، ہم پاکستان میں ملا منصور کے خلاف کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔ انہوں نے ملا محمد عمر اور ملا عبیداللہ کو شہید کیا تھا۔"

نیازی نے کہا کہ ہیبت اللہ کی زیرِ قیادت گروہ "بیرونی ممالک سے احکامات وصول کرتا ہے۔ وہ اسلامی امارت اور اس کی کامیابیوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور ہمسایہ ممالک کے خفیہ [اداروں] کی جانب سے معاونت حاصل کرتے رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ملا ہیبت اللہ کی زیرِ قیادت طالبان میں رحم نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اور گزشتہ چند دنوں میں، ہرات، بغیث اور فرح صوبوں میں [گروہ کی جانب سے کیے جانے والے بم دھماکوں میں] 250 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔"

"وہ ہمارے دشمن ہیں، اور ہم انہیں جہاں پائیں گے قتل کر دیں گے۔"

ہیبت اللہ اور ان کے اتحادی ان رپورٹوں سے بھی مطعون کیے جا رہے ہیں کہ وہ پاکستان اور دیگر جگہوں پر کئی خفیہ کاروبار چلا رہے ہیں۔

طالبان کٹھ پتلیاں

نیازہ کے مطابق، قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان زیرِ التوا امن مذاکرات نشاندہی کرتے ہیں کہ طالبان آزاد نہیں ہیں اور یہ کہ وہ ممالک جو ان کی حمایت کرتے ہیں نتیجے پر اثرانداز ہونے کے لیے مداخلت کر رہے ہیں۔

ہیبت اللہ کا دھڑا امن قائم نہیں کرنا چاہتااور ہمسایہ ممالک اس گروہ کو افغانستان میں اپنے مفادات کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، یہ ان کا کہنا تھا۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا، "ہیبت اللہ کا گروہ امریکہ کے ساتھ جو وعدے کر رہا ہے وہ جھوٹے ہیں کیونکہ گروہ امن قائم نہیں کرنا چاہتا۔ اس گروہ میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ اس کی فیصلہ سازی کی ساری طاقت 100 فیصد ایران اور روس سے کنٹرول کی جاتی ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "امن مذاکرات میں طالبان نے جو شرائط پیش کی ہیں وہ افغان عوام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں، اور وہ مفادِ عامہ اور اسلامی امارت کے حق میں نہیں ہیں۔ قطر میں موجود طالبان کے نمائنوں کے پاس مذاکرات اور گفت و شنید کرنے کی ہمت نہیں ہے، تو وہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کیسے کریں گے اور اسلامی ریاست کیسے قائم کریں گے؟"

ہرات میں سول سوسائٹی کے ایک کارکن، سید اشرف سادات نے اتفاق کیا کہ ہمسایہ ممالک غالباً اپنے اہداف کے حصول کے لیے امن مذاکرات میں طالبان کو استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، "امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کی شرائط پر گفت و شنید بہت طویل ہو گئی ہے کیونکہ مذاکرات کے آٹھ ادوار پہلے ہی ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ طالبان اپنے بل بوتے پر امریکہ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ طالبان کی معاونت کرنے والے ممالک کے مفادات ان مذاکرات کا حصہ ہو سکتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ علاقائی اور ہمسایہ ممالک مذاکرات میں اپنے مفادات کی ضمانت چاہتے ہیں اور جبکہ ان کے مطالبات مذاکرات میں بلاواسطہ نہیں آ سکتے، یہ ممکن ہے کہ طالبان بالواسطہ طور پر ان کی نمائندگی کر رہے ہوں۔

سادات نے مزید کہا، "ہمسایہ اور علاقائی ممالک افغانستان میں امن نہیں چاہتے، اور وہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔"

روس، ایران اور چین کا حوالہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، "حتیٰ کہ اگر امن کو یقینی بنایا جاتا ہے، تو ان ممالک کے شیطانی مطالبات ہوں گے جو کہ افغانستان کے لیے خطرناک ہیں۔"

اندرونی رخنے وسیع

حالیہ قتل طالبان کے دو دھڑوں کے درمیان تازہ ترین فساد ہے۔

ہرات میں مقامی حکام کے مطابق، گزشتہ تین برسوں میں دونوں اطراف سے 300 سے زائد جنگجو ہلاک اور 300 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

صوبہ ہرات کے ضلع گزارا میں ہیبت اللہ اور رسول کے گروہوں کے درمیان 6 اگست کو ہونے والی لڑائی میں دونوں اطراف کے 34 جنگجو مارے گئے تھے۔

ہیبت اللہ کے بھائی کے قتل کے علاوہ، پاکستان میں ان کے دھڑے پر دیگر دو حملوں میں 17 اور 18 اگست کو دو کمانڈر ہلاک ہو گئے تھے۔

گورنر ہرات کے ترجمان جیلانی فرہاد نے کہا، "چونکہ طالبان کے دھڑوں کے درمیان چپقلش شروع ہو گئی ہے، گروہ کی طاقت تیزی سے کم ہوئی ہے، اور یہ بہت سے علاقوں سے نکل گئے ہیں۔ وہ عام شہری جو طالبان کے حامی تھے انہوں نے ان کے اختلافات کی وجہ سے، خود کو ان سے دور کر لیا ہے اور اب انہیں مزید ان پر اعتماد نہیں ہے۔"

فرہاد نے مزید کہا، "اب طالبان کے پاس پہلے جتنی طاقت نہیں رہی ۔۔۔ کیونکہ وہ اسے استعمال کر چکے ہیں [اپنی اندرونی چپلقشوں کے ذریعے]، طالبان کے دھڑوں کے درمیان جنگیں شروع ہونے کے بعد، حکومت کا اختیار بہت سے ان اضلاع تک وسیع ہو گیا ہے جو ماضی میں طالبان کے زیرِ تسلط تھے۔"

صوبہ ہرات میں سیاسی امور کے ایک تجزیہ کار، محمد رفیق شاہیر نے اتفاق کیا کہ عسکری گروہوں کے درمیان جھڑپوں نے انہیں کمزور کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا، "طالبان کے درمیان آپسی رخنوں میں اضافے نے گروہ کو معذور کر دیا ہے۔ گروہ کے ارکان بہت ساری باتوں پر متفق نہیں ہیں، اور انہوں نے اپنے ہتھیار ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر لیے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ اس اندرونی لڑائی سے صرف عوام اور افغان حکومت کو فائدہ ہوتا ہے۔

شاہیر نے کہا، "طالبان کے پاس اب مزید ایک مربوط قوت نہیں ہے جو سیکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑ سکتی ہو کیونکہ وہ ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 4

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ مکالہ خاصہ اچھا تھا، لیکن عام آدمی کے لیے کچھ خاص نہیں تھا۔۔۔ کیوں کہ میں سمجھتا ہو کہ یہ بالکل قابلِ کراہت ہے

جواب

یہ علاقائی خبریں جب وسیع پیمانے پر عام لوگوں تک پہنچتی ہیں تو وہ اس حوالے سے بہتر رائے قائم کر سکتے ہیں۔

جواب

بہت جاندار تحریر ہے بہت ساری معلومات جو عام۔لوگوں کی رسائی سے باہر ہیں

جواب

جھوٹ

جواب