پشاور – جیسا کہ پختونخوا (کے پی) میں نوجوان مرد و خواتین میں منشیات کی عادت کی شرح خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے، پولیس نے پشاور میں میتھامفیٹامائن پر مرکوز انسدادِ منشیات کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
میتھامفیٹامائن، جو "کرسٹل میتھ" یا "آئس" کے نام سے بھی معروف ہے، ایک مصنوعی نشہ آور ہے جسے عادی کسی پائپ سے سانس کے ذریعے کھیچ سکتا ہے، کھا سکتا ہے، یا ٹیکہ لگا سکتا ہے۔
کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر قاضی جمیل الرّحمٰن نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم نے 17 اگست سے شہر بھر میں تیار کرنے والوں، اسمگلروں، بیچنے والوں اور استعمال کرنے والوں کا تعاقب کرنے کے لیے ایک خصوصی ’آئس فری پشاور‘ مہم کا آغاز کیا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ مقامی حکام نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران میتھ کے ڈیلرز کے خلاف 115 سے زائد واقعات کا اندراج کیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے 160 سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا اور اس مصنوعی نشہ آور شئے کی ایک بڑی مقدار بازیاب کی۔
رحمٰن نے کہا، "اس آفت کی بیخ کنی کی غرض سے ہر تھانے کی حدود میں منشیات ڈیلرز کا تعاقب کرنے کے لیے متعلقہ علاقہ کے [سپرانٹنڈنٹ پولیس] کے تحت خصوصی چھاپہ مار پارٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔"
عوام سے درخواست
پولیس نے پورے صوبہ کے پی میں تیزی سے پھیلنے والیرحمٰن کے مطابق، پولیس نے " یونیورسٹی اور کالج منتظمین سے طالبِ علموں کو آئس اور دیگر منشیات سے متعلق حساس بنانے کے لیے" درخواست کی ہے اور علمائے دین سے کہا ہے کہ وہ "ان کے خطرات سے متعلق۔۔۔ نمازِ جمعہ کے دوران خطبات دیں۔"
رحمٰن کے مطابق، پولیس نے "یونیورسٹی اور کالج منتظمین سے طالبِ علموں کو آئس اور دیگر منشیات سے متعلق حساس بنانے کے لیے" درخواست کی ہے اور علمائے دین سے کہا ہے کہ وہ "ان کے خطرات سے متعلق۔۔۔ نمازِ جمعہ کے دوران خطبات دیں۔"
سول سوسائٹی کے کے پی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن شاوانا شاہ نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "منشیات، بطورِ خاص میتھ کا استعمال نوجوانوں سمیت، مقامی افراد میں بلند سطح تک پہنچ چکا ہے، اور اس کے استعمال اور نقصان دہ اثرات کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ کاوشوں کی ضرورت ہے۔"
درایں اثناء، کے پی کے سینیئر سپرانٹنڈنٹ پولیس آپریشنز جاوید اقبال نے کہا کہ، پولیس نے آئس کی بیخ کنی کے لیے حکومتِ کے پی سے آئس کی بیخ کنی کی غرض سے نئے قوانین تحریر کرنے کی درخواست کی ہے کیوں کہ موجودہ قوانین مصنوعی منشیات سے متعلق خاموش ہیں۔
اقبال نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "آئس اور دیگر منشیات کی تیاری اور فروخت میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں ان کے استعمال میں کمی کے لیے مددگار ہوں گی،" انہوں نے مزید کہا کہ چھاپے روزانہ مارے جا رہے ہیں۔
اقبال نے کہا، "ہم ان [غیرقانونی] کاروباروں پر انٹیلی جنس کو بہتر بنانے اور آئس کے تمام [معلوم] فروخت کنندگان اور صارفین کی ایک ڈیٹا بیس تشکیل دینے پر کام کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ آئس اور دیگر منشیات کے کاروبار کی بیخ کنی کے لیے عوام الناس کو پولیس کی معاونت کرنی چاہیئے۔
اقبال نے کہا، "ہم منشیات کے ضرررساں اثرات سے متعلق آگاہی پیدا کرنےاور فروخت کنندگان اور عادیوں کی نشاندہی میں [عوام کی] مدد حاصل کرنے کے لیے عوامی واکس کا اہتمام کر رہے ہیں، سمینارز کا انعقاد کر رہے ہیں اور بینرز لگا رہے ہیں۔"
ایک مہلک نشہ آور
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک کرائم رپورٹر قیصر خان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "مصنوعی منشیات کے خلاف کاروائی کے کوئی مخصوص قوانین نہیں ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ ان منشیات کی وجہ سے ہونے والی عادتیں پہلے ہی اموات کا باعث بن چکی ہیں۔
خان نے کہا، "صوبہ کے پی اور ملک کے دیگر علاقوں میں آئس رقص کی نجی محفلوں کا ایک اہم حصّہ بن چکا ہے، جس کی وجہ سے رقّاص اور منتظمینِ محفل 24 گھنٹے تک تکان محسوس نہیں کرتے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ منشیات کے چند ماہرین کا ماننا ہے کہ آئس کوکین سے کئی گنا زیادہ تیز ہے، خان نے کہا، "ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ آئس چند ماہ میں متعدد انسانی اعضاء پر اثرانداز ہوتی ہے اور جلد موت کا باعث بن جاتی ہے۔"