صحت

خیبرپختونخواہ نے 'آئس' منشیات کے خلاف سرگرمیاں تیز کر دیں

عدیل سید

پشاور میں 20 جولائی کو 'آئس' کا عادی ایک شخص اسے پیتے ہوئے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے ہے۔ کے پی کی حکومت اس کیمیاوی نشے کو، جسے 'میتھ' بھی کہا جاتا ہے، کے استعمال، فروخت اور خریداری پر پابندی لگانے کے لیے منشیات کے کنٹرول کے قوانین بنانے کے بارے میں کام کر رہی ہے۔ ]عدیل سید[

پشاور میں 20 جولائی کو 'آئس' کا عادی ایک شخص اسے پیتے ہوئے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے ہے۔ کے پی کی حکومت اس کیمیاوی نشے کو، جسے 'میتھ' بھی کہا جاتا ہے، کے استعمال، فروخت اور خریداری پر پابندی لگانے کے لیے منشیات کے کنٹرول کے قوانین بنانے کے بارے میں کام کر رہی ہے۔ ]عدیل سید[

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) کے حکام نے میتھ ایمفیٹامین جسے 'کرسٹل میتھ' یا 'آئس' بھی کہا جاتا ہے کہ استعمال، فروخت اور خریداری کو روکنے کے لیے ڈرگ کنٹرول پالیسی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

کے پی کے اطلاعات اور صحت عامہ کے وزیر شاہ فرمان نے 11جولائی کو صحافیوں کو بتایا کہ "حکومت کو منشیات کی اس نئی قسم کے استعمال پر بہت زیادہ تشویش ہے خصوصی طور پر نوجوانوں میں اور وہ عوام کی حفاظت کرنا چاہتی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "بدقسمتی سے، نوجوان نسل آئس کو فیشن کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور انہیں دماغ اور صحت پر ہونے والے اس کے نقصانات کے بارے میں علم نہیں ہے"۔

انہوں نے کہا کہ اس انتہائی عادی بنا دینے والے اور نقصان دہ نشے کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حکومت ایک قانون کو منظور کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس سے موجودہ نشہ آور اشیاء کے کنٹرول کے ایکٹ میں موجود چور دروازوں کو بند کرنا ممکن ہو سکے گا۔

چونکہ آئس ایک کیمیائی نشہ ہے اس لیے یہ موجودہ قانون کے تحت نہیں آتا اور ہو سکتا ہے کہ پولیس قانونی طور پر اسے عدالت میں نشہ قرار نہ دے پائے۔

فرمان نے کہا کہ "کے پی کی حکومت صوبائی اسمبلی میں جلد ہی ایک قانون پیش کرے گی جس کے تحت صوبہ میں مستقل طور پر اس کا استعمال، فروخت اور خرید پر پابندی لگ جائے گی"۔

'آئس' تیزی سے پھیل رہی ہے

پشاور کے ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر خالد مفتی نے کہا کہ میتھ ایمفیٹامین، میتھ یا آئس ایک کیمیاوی نشہ ہے جو کہ سفید کرسٹل کی شکل میں دستیاب ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میتھ بہت زیادہ عادی کر دینے والا نشہ ہے اور یہ دوسری منشیات جن میں ہیروئن بھی شامل ہے سے کئی گنا نقصان دہ ہے"۔

انہوں نے کہا کہ عادی افراد عام طور پر میتھ کو "سگرٹ کی طرح پیتے"، سانس سے اندر لے جاتے یا ٹیکہ لگا کر استعمال کرتے ہیں۔ یہ نشہ استعمال کرنے والے کو کئی گھنٹوں تک انتہائی پھرتیلا رکھتا ہے"۔

کے پی کی انسدادِ منشیات کی فورس (اے این ایف) کے ترجمان میجر محمد عارف نے کہا کہ "آئس کی لعنت بہت تیزی سے پھیل رہی ہے اور نوجوانوں لڑکوں کے علاوہ لڑکیاں بھی اس کا نشانہ بن رہی ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "قانون کو متعارف کروانے کا فیصلہ قابلِ تعریف ہے۔ مناسب قانون کے نہ ہونے کے باعث، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کو فروخت کرنے والوں اور خریدنے والوں کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف مقدمات قائم کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے"۔

انہوں نے اس بات پر تحقیق کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ نوجوان اور خصوصی طور پر تعلیم یافتہ نوجوان اس نشے کو اتنا پرکشش کیوں پاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ آئس کی طرف کھنچتے کیوں ہیں جس کے اس کے استعمال کرنے والے کے دماغ اور صحت پر اتنے سنگین اثرات ہوتے ہیں"۔

"آئس" کے عادی افراد کے والدین کے لیے امید

کے پی کی حکومت کا فیصلہ پشاور کے ایک استاد محمد ظہور، جن کے دو نو عمر بیٹے آئس کے عادی بن گئے ہیں کے لیے ایک خوش آئند خبر ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ میرے لیے اچھی خبر ہے کیونکہ میں متعلقہ حکام سے اس بات کی درخواست کرنے کے لیے ادھر سے اُدھر بھاگ رہا تھا کہ وہ ہمارے علاقے میں چھاپے ماریں جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد اس نشے کی عادی ہو چکی ہے"۔

ظہور نے کہا کہ وہ اور ان کی بیوی، اس مسئلے کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے اور حکام کو منشیات کے ڈیلروں کے بارے میں معلومات دینے میں بہت سرگرم رہے ہیں تاکہ ان کے بیٹوں جیسے معصوم نوجوان آئس کو نہ خرید سکیں۔

ظہور نے کہا کہ "نشے نے میرے بیٹوں کو جسمانی طور پر بہت کمزور، دماغی طور پر پریشان اور بہت زیادہ جارحانہ بنا دیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "چونکہ ہم والدین ہیں اس لیے ہمارے لیے اپنے دو بیٹوں کو اس ہلاکت انگیز نشے کا عادی دیکھنا بہت مشکل ہے۔ مگر کے پی حکومت کے فیصلے نے ہمارے کچھ امید پیدا کی ہے"۔

نشے کے عادی افراد کے لیے مدد

آئس کے عادی عبدل جلال جو کہ رشید آباد، پشاور کے رہائشی ہیں، نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "جب میں نے پہلے آئس کا استعمال شروع کیا تو مجھے جسم کے اندر شدید گرمی محسوس ہوئی جس نے مجھے کئی گلاس ٹھنڈا پانی پینے پر مجبور کیا"۔

عبدل جلال نے کہا کہ وہ دو تین دن تک سو نہ سکے اور مسلسل بے چینی کے احساس نے انہیں ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا جس نے انہیں سکون بخش ادویات لکھ کر دیں۔

مگر وہ ابھی بھی عادی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئس رشید آباد اور قریبی سنگو گڑھی میں آسانی سے دستیاب ہے۔ ایک کلوگرام کی قیمت 1,200 روپے (11 ڈالر) سے لے کر 3,000 روپے (28 ڈالر) تک ہے۔

انہوں نے کہا کہ "قیمت کا انحصار معیار پر ہے اور زیادہ تر استعمال کنندگان سستی ترین خریدتے ہیں جو کہ گھٹیا معیار کی اور زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے"۔

اے این ایف کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد عامر نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے منشیات اور جرائم کے دفتر (یو این او ڈی سی) کی طرف سے 2013 میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق، کے پی کی تقریبا 11 فیصد آبادی منشیات کی عادی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان اعداد و شمار میں دوسری منشیات کے ساتھ سگریٹ اور حشیش بھی شامل ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اگرچہ حکومت کے پاس خصوصی طور پر میتھ استعمال کرنے والوں کے بارے میں اعداد و شمار نہیں ہیں مگر آئس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

آگاہی پیدا کرنا، بحالی فراہم کرنا

پشاور کی دوست ویلفئر فاونڈیشن جو کہ آورہ بچوں، منشیات کے عادی افراد، مفلس عورتوں، قیدیوں اور نوجوانوں کے لیے کام کرنے والا غیر منافع بخش ادارہ ہے، کے ڈرگ ڈیمانڈ اینڈ ڈرگ ہارم ریڈکشن پراجیکٹ کے منیجر طارق حیات نے کہا کہ کے پی حکومت کا منشیات کے بارے میں قوانین کو سخت کرنے کا قدم "بہت قابلِ تعریف" ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "قانونی چور دروازے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مناسب قدم کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے اور وہ مجرموں کی حفاظت کرتے تھے"۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان میں عمومی طور پر اور کے پی میں خصوصی طور پر آئس کے عادی افراد کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوست ویلفئر فاونڈیشن منشیات کے عادی افراد کی بحالی میں مدد کرتی ہے اور کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جب انہیں 40 سے زیادہ مریض ملتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طلباء امتحانات کی تیاری کے دوران آئس کے استعمال کرنے کی طرف راغب ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ نشہ انہیں کچھ دنوں تک جاگتا رکھتا ہے۔

اے این ایف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں سیمیناز اور لیکچر منعقد کر رہی ہے تاکہ طلباء کو ان کی زندگیوں پر آئس سے ہونے والے اثرات کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے۔

کے پی کے سوشل ویلفئر کے ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر محمد نعیم خان نے کہا کہ "کے پی کی حکومت منشیات کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے دوست ویلفئر فاونڈیشن کو 150 ملین روپے (1.4 ملین ڈالر) عطیہ کیے گئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک، صرف پشاور میں ہی منشیات کی بحالی کے پانچ مراکز قائم کیے جا چکے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 7

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

میرا خاوند آئس کا عادی ہے. کیا آپ مجھے ہسپتال کا پتہ اور رابطہ نمبر دے سکتے ہیں؟

جواب

میں برف کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔ مجھے اس سے پیار ہے

جواب

تمام منشیات فروشوں اور فراہم کنندگان کے خلاف دہشتگردی کے قانون کے تحت مقدمات چلنے چاہیئں اور انہیں سخت ترین سزا ملی چاہیئے

جواب

اسے طاقت سے روکنا چاہیئے

جواب

خیبر سپر مارکیٹ منشیات استعمال کرنے والوں سے بھری ہے۔ برائے مہربانی کیا آپ اس علاقے کو صاف کرسکتے ہیں، اس کو بہت سراہا جائے گا۔ اگر اس معاملے پر آپ کو کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو مجھے مدد کرنے پر خوشی ہوگی۔

جواب

حکومتِ کے پی کو ایک بل پاس کرنا چاہیئے جس میں آئس کے بیوپاریوں کو سزائے موت یا عمر قید سنائی جائے۔ ان سے درگزر نہیں کیا جانا چاہیئے، کے پی حکومت کو ہمارے نوجوانوں اور کمیونیٹی کے مستقبل کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔

جواب

میتھامفیٹامائن یا آئس ایک کیمیائی مادہ ہے، تاہم اب ضرورتِ وقت ہے کہ صوبہ کے پی میں کنٹرول اور ضابطہ کا نظام/ادارہ متعارف کرانا چاہیئے، کیوں کہ یہی کمیائی مادّہ کیمیائی اور ادویہ سازی کی مختلف صنعتوں میں متعدد اہم جائز/قانونی مصنوعات کی تیاری میں بطورِ خام مال استعمال ہوتا ہے۔ ان لازم کیمائی مادّوں کا چیلنج منشیات کی تیاری کے لیے ان کے منحرف/چوری ہو جانے کو روکنا ہے۔ لہٰذا امتناع کی ایک اچھی طرح سے مربوط اور ہم ربط حکمتِ عملی اپنانے کے لیے تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جانا چاہیئے۔ (ضلعی ایکسائز، ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول آفیسر)

جواب