جرم و انصاف

کے پی کی نظریں 'آئس' کے استعمال پر سخت ترین سزاؤں پر

از عدیل سعید

آئس بحالی مرکز (آئی آر سی) پشاور کے مریض 22 اپریل کو بحالی کے عمل سے گزرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

آئس بحالی مرکز (آئی آر سی) پشاور کے مریض 22 اپریل کو بحالی کے عمل سے گزرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور -- خیبرپختونخوا (کے پی) حکومت نے ایک مسودۂ قانون منظور کیا ہے جس کے مطابق ان افراد کو سزائے موت دی جا سکتی ہے جن کے قبضے سے 1 کلوگرم کرسٹل متھ برآمد ہوتی ہے۔

منشیات کے استعمال کے خلاف جنگ سے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں مدد ملنے کی توقع ہے۔ کابل کے مطابق، افغانستان میں غیر قانونی منشیات کی 99 فیصد کمائی دہشت گردوں اور منشیات کے سمگلروں کو جاتی ہے۔

16 اپریل کو صوبائی کابینہ نے "خیبرپختونخوا منشیات کے مواد پر قابو پانے کے بل 2019" کی منظوری دی۔ توقع ہے کہ یہ بل کے پی اسمبلی سے منظور ہو جائے گا۔

کے پی وزیرِ اطلاعات شوکت یوسفزئی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "نئے قانون کے پسِ پُشت مقصدمتھ کے بڑھتے ہوئے استعمال کی روک تھام، خصوصاً نوجوانوں میں، ہے۔"

آئی آر سی پشاور کے مریض 22 اپریل کو مہارتوں کی تربیت حاصل کرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

آئی آر سی پشاور کے مریض 22 اپریل کو مہارتوں کی تربیت حاصل کرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

انہوں نے کہا کہ مسودۂ قانون کرسٹل متھ ("آئس") کی غیر قانونی نقل و حمل کا ارتکاب کرنے والوں یا استعمال کرنے والوں کے لیے سخت ترین سزائیں تجویز کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ 50 گرام تک آئس رکھنے پر، دو سال قید اور جرمانہ، یا دونوں کی تجویز پیش کرتا ہے۔

یوسفزئی نے کہا کہ بڑے مجرمان کو 1 کلو گرام منشیات رکھنے پر سزائے موت یا عمر قید، بمعہ 500،000 روپے (3،530 ڈالر) یا 1 ملین روپے (7،150 ڈالر) جرمانہ ہو سکتا ہے۔

مسودۂ قانون منشیات فروشوں اور سمگلروں کو خصوصی طور پر ہدف بنانے کے لیے خصوصی عدالتوں اور ایک پولیس یونٹ کے قیام کی تجویز پیش کرتا ہے۔

یوسفزئی نے کہا کہ نیا قانون آئس کے مشتبہ فروخت کنندگان اور صارفین کو گرفتار کرنے اور ان پر مقدمات قائم کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک ذریعہ فراہم کرے گا، انہوں نے مزید کہا کہ اس نشے کے نسبتاً حالیہ منظرِ عام پر آنے نے حکام کی اس کے خلاف لڑنے کی صلاحیت کو کم کر دیا تھا۔

آئس سے نمٹنا

"یہ فیصلہ ۔۔۔ ہمارے نوجوانوں کی جانب سے آئس اور دیگر منشیات کے استعمال کو محدود کرنے میں بہت مددگار ثابت ہو گا،" یہ بات پشاور میں واقع، پاکستان کے پہلے آئس بحالی مرکز (آئی آر سی)کے منتظم، ڈاکٹر جاوید حسین نے پاکستان فارورڈ کو بتائی۔

انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں آئس کا استعمال بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور آئس کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف جارحانہ اقدامات کرنا حکومت کی جانب سے بہت بروقت فیصلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ کے پی حکومت معاشرے سے منشیات کی بیخ کنی کرنے میں سنجیدہ ہے، اس لیے سخت ترین قوانین بنا رہی ہے۔

حسین کے مطابق، 28 جنوری کو اس کے افتتاح کے بعد سے ملک بھر سے 400 نشئی آئی آر سی سے مستفید ہوئے ہیں۔

آئی آر سی کے بحالی افسر، ڈاکٹر اعظم شعیب نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہمارے ہاں 100 مریضوں کا علاج کرنے کی گنجائش موجود ہے، اور اس وقت مرکز میں تقریباً 80 مریض داخل ہیں۔"

شعیب نے کہا کہ نشے کی عادی خواتین نے آئی آر سی سے علاج کروانے کی کوشش کی ہے مگر خواتین پر مشتمل عملے کے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں دیگر اداروں میں جانا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ قانون کو ڈیلروں کی رسد کے سلسلے کو منقطع کرنا چاہیئے۔

پشاور کے ماہرِ دماغی امراض اور عبادت ہسپتال کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر خالد مفتی، جو کہ دماغی بیماری کا علاج کرتے ہیں، نے منشیات کی لت کی بلند ہوتی ہوئی قومی شرحوں کے متعلق تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا، "آئس کا نشہ بہت زہریلا ہے ۔۔۔ دماغی صحت کو متاثر کرتا ہے، اور اس کے استعمال میں اضافہ سنگین تشویش کا باعث ہے۔"

انہوں نے کہا، "کے پی اسمبلی کو چاہیئے کہ اس قانون کو فوری طور پر منظور کرے۔"

بکھری امیدیں

پاکستانی جنہوں نے نشے کے غلط استعمال کے نتائج بھگتے ہیں وہ اس قانون کی حمایت کرتے ہیں۔

آئی آر سی کے ایک مریض، 30 سالہ امجد الرحمان نے کہا کہ ڈیلروں کے لیے سخت ترین سزاؤں پر مشتمل قانون کی ضرورت ہے۔

امجد الرحمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "آئس کے استعمال کے پسِ پشت بنیادی وجہ اسے خریدنے میں آسانی ہے۔ اگر حکومت عوام کو آئس سے بچانا چاہتی ہے، تو لازمی طور پر اس کے ڈیلروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے۔"

سالار خان، پشاور کے ایک مکین جن کا بیٹا آئی آر سی میں مریض ہے، نے کہا، "میرا بیٹا، 24 سالہ فرمان ۔۔۔ پشاور کے نواح میں کارخانوں (صنعتی) مارکیٹ میں بطور مزدور کام کرتا تھا۔"

خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اس کی آئس کے نشے کی لت نے نہ صرف اسے جسمانی طور پر کمزور کر دیا ہے "بلکہ اس سے وابستہ ہماری امیدوں کو بھی بکھیر دیا ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ منشیات فروش سخت ترین سزاؤں کے مستحق ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بدقسمتی سے منشیات فروشوں کے خلاف کوئی سنجیدہ کاروائی نہیں کی گئی

جواب