محدود صلاحیت اور ٹیکنالوجی کے مسائل سے آگے چین کی بیرونِ ملک عسکری فروخت کو طویل عرصہ سے ایک اور مسئلہ کا سامنا ہے: کوئی بھی بیجنگ سے اتحاد نہیں کرنا چاہتا۔
ایئروڈائیامک ایڈوائزری کے ایک مینیجنگ ڈائریکٹر رچرڈ ابولافیا نے فارن پالیسی کے لیے لکھا، ”عالمی منظر نامے پر چین کا قد بڑھ چکا ہے، متعدد کو توعق ہے کہ اس کی اسلحہ کی برآمدات عالمی مچان پر اس کے درجہ کی نمائندگی کریں گی۔ کئی دہائیوں کی کوشش کے بعد، مختصراً یہ کہ ایسا نہ ہو سکا۔“
انہوں نے لکھا، ”بنیادی طور پر چند ہی بیجنگ کے ساتھ شراکت داری کے خواہاں ہیں۔“
”اگر آپ کے پاس دوست نہ ہوں تو اچھے اسلحے کی وقعت کم ہو جاتی ہے۔“
دو دہائیاں قبل، تجارتی اور خلائی و ہوابازی کی ٹیکنالوجی کے جریدوں نے پیشگوئی کی کہ چین ترقی پزیر دنیا کو لڑاکا طیارے فراہم کنندہ کے طورپر روس سے سبقت لے جانے کے لیے پراعتماد تھا۔
ابولفیفا نے کہا کہ وہاں سے آج کے دن پر آ جائیں تو اعداد و شمار واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔
سٹاک ہوم بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیقِ امن کے مطابق، 2000 اور 2020 کے درمیان چین نے صرف 7.2 بلین ڈالر مالیت کے عسکری طیارے برآمد کیے ہیں۔
اس کے مقابلہ میں امریکہ نے 99.6 بلین ڈالر مالیت کے لڑاکا طیارے برآمد کیے، روس 61.5 بلین ڈالر کے ساتھ درجۂ دوئم پر رہا، یہاں تک کہ فرانس 14.7 بلین ڈالر کے ساتھ چین سے آگے رہا۔
چین کے لیے قوتِ رفتار میں تیزی کے کم ہی اشارے ہیں۔
ابولفیفا نے کہا، ”اس ناکامی کے لیے بہترین وضاحت چین کی خارجہ پالیسی ہے۔“
بھارت اور ویت نام کے ساتھ ابتر ہوتے تنازعات نے ان کے لیے اسلحہ فراہم کنندہ کے طور پر چین کو خارج از فہرست کر دیا ہے۔
ملائشیا اور انڈونیشیا بھی بیجنگ کے ارادوں سے اس قدر ہوشیار ہیں کہ وہ چین سے لڑاکا طیارے حاصل کرنے کو زیرِ غور نہیں لاتے۔
ابولفیفا نے کہا کہ مزید برآں، چین کے نسبتاً مسدود معاشی نظام کا مطلب ہے کہ ایسے ممکنہ گاہکوں، جن کی معیشتیں برآمدات پر منحصر ہیں، کے پاس حاصل کرنے کے لیے کم ہی ہے، کیوں کہ چین عالمی طور پر غالب برآمدات تیارکنندہ بننا چاہتا ہے۔
ایک غیر دوستانہ ہمسایہ
بحرۂ جنوبی چین سے وسط ایشیا تک بیجنگ کی اپنے جغرافیائی-سیاسی اور عسکری رسوخ کو پھیلانے کی جارحانہ جستجو نے خطے میں اس کے اسلحہ کی طلب کو کچل کر رکھ دیا ہے ۔
حالیہ مہینوں میں تائیوان کے خلاف چین کی دہشتزدگی اور دھمکیاں مزید نمایاں ہو گئی ہیں، اور یوکرین پر روس کے حملے نے تائیوان میں خدشات کو مزید عمیق تر بنا دیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بیجنگ اس جزیرے کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے اسی طرح سے کاروائی کرے۔
چین خودمختار، جمہوری تائیوان کو اپنی سرزمین کا ایک جزُ سمجھتا ہے، جسے اسے ایک دن – اگر ضروری پڑی تو بزورِ بازو— لے لینا ہے اور یہ جزیرہ چینی حملے کے مستقل خوف میں ہے۔
اے ایف پی کی ڈیٹا بیس کے مطابق، چین نے 2022 میں تائیوان کی ائیر ڈیفنس آئیڈنٹیفیکیشن زون (اے ڈی آئی زیڈ) میں 1,700 سے زائد مرتبہ دخل اندازی کی، جو تعداد 2021 میں 969 تھی۔ تائیوان کی وزارتِ دفاع نے کہا کہ اس نے 2020 میں تقریباً 380 مرتبہ ایسی مداخلت ریکارڈ کی۔
تائیوان کے گرد پانیوں میں چین کی عسکری مشقوں – جن میں سے تازہ ترین 8 جنوری کو منعقد ہوئیں – نے بھی عالمی بحری راستوں کو متاثر کیا ہے۔
درایں اثناء چین اور جاپان کے درمیان تناؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، کیوں کہ بیجنگ بحیرۂ مشرقی چین میں جاپان کے زیرِ انتظام غیر آباد جزائر سینکاکو پر دعویٰ کیے ہوئے ہے۔
چین تقریباً تمام تر جنوبی بحیرۂ چین پر بھی دعویٰ کرتا ہے، جہاں سے سالانہ کئی ٹریلین ڈالر کی تجارت ہوتی ہے، جبکہ اس کے مقابلہ میں برونائی، ملائشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام کے بھی دعوے ہیں۔
حالیہ برسوں میں بیجنگ اپنے میڈیا پر وسط ایشیا میں یہ تصور پھیلا رہا ہے کہ وہ ”اپنے“ علاقہ ہائے عملداری واپس لے رہا ہے تاکہ مقامی آبادی کے ردِّ عمل کا اندازہ لگائے، مشاہدین کا کہنا ہے کہ یہ خطے کی خودمختاری کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔
بیجنگ عسکری اور تجارتی تنصیبات کے ایک نیٹ ورک کے ذریعے مین لینڈ چین کو صومالی جزیرہ نما سے ملانے کے لیے بڑے پیمانے پر ایک بنیادی ڈھانچے کی مہم کی بھی پیروی کر رہا ہے۔
اس کی ”موتیوں کی لڑی“ کی حکمتِ عملی کے جزُ کے طور پر چین کے سمندری لائینیں مالدیپ، سے بنگلہ دیش، سری لنکا، پاکستان، ایران اور صومالیہ تک متعدد بڑی بندرگاہوں سے گزرتی ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) یا ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) کے نام سے معروف بیجنگ کی بینادی ڈھانچے کی عالمی مہم، ان اہم بندرگاہوں سے زمین پر چلتی ہوئی مشرقِ وسطیٰ، وسط ایشیا اور افریقہ کے دیگر حصّوں تک پہنچتی ہے۔
تاہم ناقدین تنبیہ کرتے ہیں کہ چین کے ظاہری طور پر تجارتی منصوبے ایک دہرا مقصد پورا کرتے ہوئے اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی فوج کو اپنی رسائی میں اضافہ کرنے کے قابل بناتے ہیں۔
گاہکوں کا فقدان
جبکہ 1980 کی دہائی کے زمانہ کے ایف 16 متعارف کرائے جانے کے 40 برس بعد بھی دو درجن سے زائد فضائی افواج میں بڑے پیمانے پر کارگر ہیں، بیجنگ کو حال ہی میں اپنے جے-10 کا پہلا برآمدی گاہک ملا ہے: پاکستان، ایک ایسا ملک جس پر چین کا حد سے زیادہ معاشی اور سیاسی رسوخ ہے ۔
پاک فضائیہ (پی اے ایف) نے مارچ 2022 میں 36 جے-10 سی ای طیاروں میں سے پہلے چھ موصول کیے۔
مزید چھ ستمبر میں پہنچائے گئے۔
مرکز برائے تضویری و بین الاقوامی علوم کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ 2010 سے اب تک چین کے روایتی اسلحہ کی فروخت کا 63.4 فیصد پاکستان، بنگلہ دیش اور برما کو گیا ہے۔
لیکن جیسا کہ چینی ہتھیار اپنے مغربی ہم عصروں کی نسبت سستے ہوتے ہیں، وہ عموماً ان جتنے قابلِ اعتماد نہیں ہوتے۔
چین کے جے-10 لڑاکا جیٹ طیاروں جیسے چند ایک لڑائی میں آزمائے ہی نہیں گئے۔
چین کی ایک شدید معذوری ہے کہ وہ ایک ایسا ملک ہوتے ہوئے اپنی عسکری صلاحیت کی تشہیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے: جس کا 40 برس سے زائد عرصہ میں جنگ کا کوئی تجربہ نہیں رہا ہے۔
فروری-مارچ 1979 میں اپنے پرانے اتحادی ویتنام سے ایک 27 روزہ جنگ کے بعد سے کسی نے جنگ میں چینی ساختہ اسلحہ کی کارکردگی کا مشاہدہ نہیں کیا۔
نتیجتاً چینی انجنیئرز اور ڈیزائینرز کے پاس ان کوتاہیوں کا مشاہدہ کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا جنہیں درست کرنے کی ضرورت تھی۔
دوسری جانب، دنیا بھر میں ملٹری ہیڈکوارٹرز میں جنگی مشاہدین نے 1981 سے اب تک، زیادہ تر مشرقِ وسطیٰ میں، معمول میں ایف-16 کو مخالفین کو ناکوں چنے چبواتے دیکھا ہے۔