سلامتی

چین کے جے-10 لڑاکا طیارے غیر ملکی خریداروں کے لیے کم ہی پر کشش ثابت ہوئے

پاکستان فارورڈ

18 نومبر کو ایک جے-10 ایک تربیتی مشق کے دوران رن وے پر ٹیکسی کر رہا ہے۔ [چینی وزارتِ دفاع]

18 نومبر کو ایک جے-10 ایک تربیتی مشق کے دوران رن وے پر ٹیکسی کر رہا ہے۔ [چینی وزارتِ دفاع]

امریکی ساختہ ایف-16 فائٹنگ فالکنز کے ہم پلہ ہونے کی تشہیر کے باوجود چین کا جے-10 وگورس ڈریگن چند ہی ممکنہ غیرملکی خریداروں کے لیے پرکشش ثابت ہوا۔

جے-10 کی تیاری کا آغاز 1988 میں ہوا، جو کہ ایک چوتھی نسل کا لڑاکا طیارہ بنانے کی چین کی پہلی کوشش تھی۔ اس کی خصوصیات میں ایک ڈیلٹا وِنگ اور کینارڈ ڈیزائن اور تار کے ذریعے اڑانے والے فلائٹ کنٹرول شامل ہیں۔

جب 2004 میں اس لڑاکا طیارے کا ابتدائی شمارہ، جے-10 اے سروس میں لایا گیا تو اس وقت وہ خاصی حد تک متروک ہو چکا تھا۔

اس لڑاکا طیارے کے اگلے شمارے، جے-10 بی نے 2008 میں اپنی پہلی پرواز کی اور 2014 میں سروس میں لایا گیا، جبکہ اس میں ہوا میں ایندھن بھرنے کی صلاحیت اور تھرسٹ ویکٹر صلاحیتوں اور ریڈار ٹیکنالوجی میں بہتریاں لائی گئیں۔

6 جنوری کو ایک جے-10 لڑاکا طیارے میں ایک پائلٹ۔ [چینی وزارتِ دفاع]

6 جنوری کو ایک جے-10 لڑاکا طیارے میں ایک پائلٹ۔ [چینی وزارتِ دفاع]

6 جنوری کو ایک رن وے سے دو جے-10 پرواز کر رہے ہیں۔ [چینی وزارتِ دفاع]

6 جنوری کو ایک رن وے سے دو جے-10 پرواز کر رہے ہیں۔ [چینی وزارتِ دفاع]

تازہ ترین شمارہ جے-10 سی ہے، جس میں تجدید شدہ ایوی اونکس ہیں اور یہ ایک جدید جیٹ انجن ان ٹیک اور داخلی طور پر تیار شدہ انجن کا حامل ہے۔ جے 10 سی چین کے نئے فضا سے فضا میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل استعمال کر سکتا ہے۔

مبینہ طور پر جدید ترین ماڈل حدِ بصری سے ماورا لڑائی، درست نشانے پر فضا سے زمین پر حملے، ڈجیٹل گلاس کاکپیٹ انسٹرومنٹس، دورانِ پرواز ایندھن بھرنے اور الیکٹرانک وار فیئر کی صلاحیتوں کا حامل ہے۔

ایک مشکوک مستقبل

مطلوبہ صلاحیتوں کے باوجود، چند ہی غیر ملکی افواج نے جے-10 میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

2018 سے اب تک چینگڈو ایئرکرافٹ انڈسٹری گروپ نے اس طیارے کے ایک برآمدی ماڈل کا چرچہ کیا ہے جسے اس نے جے-10 سی ای کہا ہے۔

عموماً تیار کنندگان حساس ترین نظام ہٹا کر برآمدی طیاروں کی درجہ شکنی کرتے ہیں۔

چارلی گاؤ نے مارچ 2021 میں دی نیشنل انٹرسٹ کے لیے ایک مکالہ میں حوالہ دیتے ہوئے لکھا، ”جے-10 کا مستقبل مشکوک رہا ہے۔“

”جے-11 زیادہ تر پہلوؤں میں جے-10 کی نسبت کئی گنا زیادہ با صلاحیت ہے اور اس میں تجدید کی زیادہ گنجائش ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ چین آر اینڈ ڈی ]تحقیق و تجدید[ اور تشکیل جاری رکھے گا۔“

انہوں نے حوالہ دیا، ”فی الوقت جے-10 سی نیٹو معیار کے پائیلون استعمال کرنے کے نتیجہ میں فضا سے زمین کے میدان میں زیادہ باصلاحیت ہے، تاہم ممکن ہے کہ مستقبل کے جے-11 شماروں میں یہ تبدیل ہو جائے۔“

جبکہ 1980 کی دہائی کے دور کا ایف-16 اپنے متعارف کیے جانے کے 40 برس بعد بھی برآمد ہو رہا ہے اور دو درجن سے زائد فضائی افواج میں بڑے پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے۔ بیجنگ کو حال ہی میں اپنے جے-10 کا پہلا گاہک ملا ہے: پاکستان، ایک ایسا ملک جس پر چین کا زبردست سیاسی اور سیاسی رسوخ ہے۔

پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) نے مارچ 2022 میں 36 جے-10 سی ای طیاروں میں سے پہلے چھ وصول کیے۔

چھ دیگر ستمبر میں فراہم کیے گئے تھے۔

کچھ مدت کے لیے پاکستان کے جے ایف-17 نے جے-10 ایس کی فروخت میں نمایاں رکاوٹ پیدا کی۔

جے ایف-17 تھنڈر جنگی طیارہ، جسے پاکستان کے ایئروناٹیکل کمپلیکس اور چین کے چینگڈوایئرکرافٹ انڈسٹری گروپ نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے، ایک کم لاگت کا لڑاکا طیارہ ہے جس کا ایئرفریم چینی ہے، یہ مغربی ایوی آنکس سے لیس ہے اور اسے ایک روسی جیٹ انجن توانائی فراہم کرتا ہے۔

پاکستان نے 2007 سے اب تک یہ 100 سے زائد طیارے کمیشن کیے ہیں۔

دی نیشنل انٹرسٹ نے نومبر 2019 میں خبر دی، ”اگرچہ جے-10 جے ایف-17 سے زیادہ جدید ہے، تاہم یہ دونوں یکساں طور پر ہلکی لڑائی کے زمرہ سے ہیں، اور اسلام آباد اس جیٹ کے حصول اور ارتقاء کے لیے زیادہ پر عزم ہے جس کی پہلے ہی سے اس کے پاس جزوی ملکیت ہے۔“

”نسبتاً کم قیمت جے ایف-17 نے ایشیا اور افریقہ میں دیگر مقامات پر بھی جے-10 کے بجائے برآمدی آرڈر حاصل کیے ہیں۔“

ناقص آلات

جے ایف-17 کے ساتھ پاکستان کے تجربات جے-10 کے مسقتبل کے مسائل کو مزید نمایاں کر سکتے ہیں.

جے ایف-17 کو متعارف کرائے جانے سے اب تک حادثات کا ایک تسلسل ریکارڈ پر ہے، جس سے چین کے اشتراک سے تیارکردہ طیارے اور ان کے انجنوں کے معیار سے متعلق سنجیدہ خدشات پیدا ہوتے ہیں۔

2012 کی ایک میڈیا رپورٹ میں 18 ماہ کے دوران 12 حادثات کے ایک سلسلہ کی فہرست بنائی گئی، جن میں چین سے لائے گئے متعدد جے ایف-17 اور چینگڈو ایف-7 فائیٹر جیٹ متاثر ہوئے۔

اس کے بعد، حال ہی میں، ہندوستان ٹائمز نے خبر دی کہ جے ایف-17 کے بیڑے میں سے زیادہ تر گزشتہ اگست میں آر ڈی-93 انجن کے فاضل پرزہ جات کے فقدان کی وجہ سے گراؤنڈ کر لیے گئے۔

اس رپورٹ کے مطابق، جے ایف-17 طیارے میں نصب شدہ آر ڈی-93 انجنوں کی ایک بڑی تعداد میں گائیڈ وینز، ایگزہاسٹ نوزلز اور فلیم سٹیبلائزرز میں دراڑیں پڑ گئی تھیں۔

ایسے مسائل صرف لڑاکا طیاروں تک ہی محدود نہیں۔

دفاعی تھنک ٹینکس کے مطابق پاکستان 2009 سے اپنے چار چینی ساختہ ایف-22 پی فرائیگیٹس میں بھی شدید مکینیکل مسائل کا سامنا کر رہا ہے یہ فرائیگیٹس 2005 میں چین کے ساتھ 750 ملین ڈالر کے معاہدے کے تحت 2009 سے 2013 کے درمیان پاکستان کو فراہم کیے گئے تھے۔

یہ فرائیگیٹس 2005 میں چین کے ساتھ 750 ملین ڈالر کے معاہدے کے تحت 2009 سے 2013 کے درمیان پاکستان کو فراہم کیے گئے تھے۔

دی اکانومک ٹائمز آف انڈیا نے اس وقت نامعلوم ذرائع کے حوالہ سے خبر دی تھی کہ فروری 2022 میں پاک فوج کے سامنے چائنا نارتھ انڈسٹریز کارپوریشن (نورِنکو) کے بیرونِ ملک برآمد کے لیے تیار کردہ مرکزی جنگی ٹینک وی ٹی-4 میں معیار اور قابلِ اعتبار ہونے سے متعلق مسائل آئے۔

پاکستان کی چین سے درآمد شدہ 203 ایم ایم کھینچ کر لے جانے والی بھاری توپخانہ کی توپوں نے بھی سردرد میں اپنا حصہ ڈالا۔

ہونولولو، ہوائی میں ڈینیئل کے۔ انؤیے ایشیا پیسیفک مرکز برائے علومِ سلامتی میں ایک پروفیسر، الیگزانڈر وُووِنگ نے جون میں یورایشیئن ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، ”چینی ساختہ اسلحہ نہ صرف تکنیکی طور پر کمتر ہوتا ہے، بلکہ یہ امریکہ اور اس کے متعدد اتحادیوں سے آنے والے اسلحہ کے برعکس میدانِ جنگ میں بنا تجربہ ہی رہتا ہے۔“

انہوں نے کہا کہ چینی عسکری سازوسامان کے متعدد خریداروں کے لیے بنیادی عناصر ”قیمت اور سیاست ہوتے ہیں، جس میں بدعنوانی ایک نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500