دہشتگردی

ٹی ٹی پی کے خودکش بمبار کے پولیس مسجد پر حملے کے بعد پاکستان انتہائی چوکس

از پاکستان فارورڈ

پشاور میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر، 30 جنوری کو ہونے والے دھماکے کے بعد، ایک ایمبولینس زخمیوں کو لے جا رہی ہے۔ پولیس ہیڈ کوارٹر کے اندر ایک مسجد میں ہونے والے دھماکے میں متعدد نمازی ہلاک اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار تھے۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

پشاور میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر، 30 جنوری کو ہونے والے دھماکے کے بعد، ایک ایمبولینس زخمیوں کو لے جا رہی ہے۔ پولیس ہیڈ کوارٹر کے اندر ایک مسجد میں ہونے والے دھماکے میں متعدد نمازی ہلاک اور زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار تھے۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

پشاور -- انتہائی حساس پاکستانی پولیس ہیڈکوارٹر کے اندر واقع ایک مسجد میں، پیر (30 جنوری) کو ایک خودکش بمبار نے کم از کم 37 افراد کو ہلاک اور 150 دیگر کو زخمی کر دیا، جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار تھے۔ جس کے بعد حکومت نے ملک کو انتہائی چوکس کر دیا ہے۔

یہ حملہ پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں سہ پہر کی نماز کے دوران ہوا۔

مسجد جہاں دھماکہ ہوا تھا کی ایک پوری دیوار اور اس کی چھت کا کچھ حصہ، دھماکے کی وجہ سے مسمار ہو گیا اور وہاں پر ایک دیوانہ وار ریسکیو مشن جاری تھا۔

پشاور کیپٹل سٹی پولیس آفیسر محمد اعجاز خان نے صحافیوں کو بتایا کہ مسجد کا مرکزی ہال منہدم ہو گیا ہے لیکن عمارت کا باقی حصہ ابھی تک سلامت ہے۔

خان نے کہا کہ "بہت سے پولیس اہلکار ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں"۔ ان کا اندازہ ہے کہ عموماً 300 سے 400 کے درمیان اہلکار مسجد میں نماز ادا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ "انہیں بحفاظت باہر نکالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں"۔

خون میں لت پت زندہ بچ جانے والے، ملبے سے لنگڑاتے ہوئے نکل رہے تھے، جب کہ ریسکیو آپریشن زور و شور سے جاری تھا اور لاشوں کو ایمبولینسوں میں لے جایا جا رہا تھا۔

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ "یہ ایک ہنگامی صورتحال ہے"۔

پشاور میں پولیس ہیڈ کوارٹر، شہر کے انتہائی سخت کنٹرول میں رکھے جانے والے علاقوں میں سے ایک ہے، جس میں انٹیلی جنس اور انسداد دہشت گردی کے بیورو موجود ہیں اور یہ علاقائی سیکرٹریٹ کے بالکل قریب واقع ہے۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی کے ایک کمانڈر سربکف مہمند نے ٹویٹر پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

عینی شاہدین نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کو بتایا کہ خودکش بمبار جو کہ امام کے پیچھے پہلی صف میں کھڑے تھے، نے دھماکہ خیز جیکٹ اڑا دی۔

تشدد کی تاریخ

دھماکے کے بعد ملک کو انتہائی چوکس کر دیا گیا اور چوکیوں کو تعداد کو بڑھا دیا گیا اور اضافی سکیورٹی دستے تعینات کر دیے گئے جبکہ دارالحکومت، اسلام آباد میں عمارتوں اور شہر کے داخلی راستوں پر سنائپرز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ "دہشت گرد ان لوگوں کو نشانہ بنا کر جو کہ پاکستان کا دفاع کرنے والے ہیں، خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں۔"

"پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کا نام و نشان روئے زمین سے مٹا دیا جائے گا۔"

پاکستان کا ناہموار شمال مغربی خطہ، طویل عرصے سے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا گڑھ رہا ہے۔

سب سے بڑا خطرہ ٹی ٹی پی سے ہے جو کہ دوبارہ سر اٹھا رہی ہے اور جس نے پولیس اور سیکورٹی فورسز پر کم جانی نقصان والے حملوں میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق، اگست2021 کے بعد سے اب تک، پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 50 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے، جن کی توجہ زیادہ تر مغربی سرحدی صوبوں پر مرکوز رہی ہے۔

دریں اثنا، "دولتِ اسلامیہ" کی علاقائی شاخ نے گزشتہ مارچ میں پشاور میں ایک اقلیتی شیعہ مسجد پر حملے کا دعویٰ کیا تھا جس میں 64 افراد ہلاک ہوئے تھے، جو کہ 2018 کے بعد سے پاکستان کا سب سے مہلک دہشت گردانہ حملہ تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ٹھنڈ (بدھ/19 جنوری) – خیبر پختونخوا پولیس نے آج ایک ریلی کے دوران اپنے مرحوم ساتھیوں کی خونریزی کی ساخت معلوم کرنے کے لیے آواز اٹھائی۔ پولیس کے مطابق، سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں نظر آنے والے ان لوگوں کو جانتے ہیں جو ان کے دوستوں کے قتل میں ملوث تھے۔ پاکستان میں نامعلوم کی اصطلاح عموماً پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کے عملہ کا حوالہ دینے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے خوف پھیلاتے ہیں۔ پیر کو ایک حملے میں 101 لوگ شہید ہوئے اور درجنوں دیگر زخمی ہوئے، جبکہ کچھ اسے خودکش حملہ کہہ رہے ہیں اور کچھ اسے پشاور، پختونخواہ میں پولیس لائنز مسجد پر ایک ڈرون حملہ تصور کرتے ہیں۔ اس سانحہ کے بعد، عوام بالعموم اور اس کے ساتھ ساتھ پشتون قومیت پسند جماعتیں اور آج خود پولیس بھی اپنے دوستوں کے قتل کا الزام انٹیلی جنس ایجنسیوں پر لگا رہی ہے۔ پاک فوج کی ویب سائیٹ پر شائع ہونے والی معلومات کے مطابق، اس ملک کی فوج 14 اگست، 1947 کو برطانوی جرنیل جنرل سر فرینک والٹن میسروی کی قیادت میں تشکیل پائی، جنہوں نے فروری 1948 تک اس فوج کی قیادت کی۔ پاک فوج کی ویب سائیٹ کے مطابق، فروری 1948 میں پاک فوج کی قیادت ایک اور برطانوی جرنیل ڈگلس ڈیوڈ گریسی کے حوالہ کی گئی۔ وہ اپریل 1951 تک ملک کے آرمی چیف رہے، اور 1951 میں انہوں نے اپنی ذمہ داری اپنے تربیت یافتہ ایوب خان کے سپرد کیں۔ اسی طرح پاکستان کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) برطانوی-آسٹریلوی جرنیل رابرٹ کاؤتھوم کے ہاتھوں تشکیل پائی، اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس امور کا انتظام بکثرت بیرونِ ملک ہی سے کیا جاتا ہے۔https://taand.net/?p

جواب