بغداد -- شمالی عراق پر "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کی حکمرانی کی ہولناکیاں ماضی کی ہو سکتی ہیں، لیکن شدت پسندوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوششیں اب بھی رفتار پکڑ رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے صدر تفتیش کار کرسچن رِچر، جو قتل، تشدد اور اجتماعی عصمت دری سے لے کر غلامی اور نسل کشی تک داعش کے مظالم کا جائزہ لے رہے ہیں، نے کہا، "بہت سا کام کرنا باقی ہے"۔
رِچر، جو کہ احتساب کو فروغ دینے کی کوشش کرنے والی اقوامِ متحدہ کی تفتیشی ٹیم (یونائیٹڈ)کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ عراق میں تنظیم کی شکست کے پانچ برس بعد، عراقی جیلوں میں اس کے ہزاروں ارکان قید ہیں، جن سے جرائم کی تحقیقات کا کام جاری ہے۔
بغداد میں ایک انٹرویو میں، جرمنی کے سابق وکیلِ استغاثہ نے اس سنگین کام -- جو عراقی حکام کے تعاون سے کیا گیا -- کو "مشکل" اور دائرہ کار میں متنوع قرار دیا
رِچر نے اے ایف پی کو بتایا، "ہم نے ابھی داعش کے ہاتھوں عراق کے ثقافتی ورثے کی تباہی کے بارے میں تحقیقات شروع کی ہیں -- مقبروں، گرجا گھروں، ثقافتی مقامات، عجائب گھروں کی تباہی"۔
انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل کی تحقیقات میں عراق کے شمال میں واقع ایک بڑے شہر موصل میں ہونے والے جرائم پر توجہ مرکوز کی جائے گی جس پر داعش نے سنہ 2014 سے سنہ 2017 تک قبضہ کیا ہوا تھا۔
عراق نے 9 دسمبر 2017 کو داعش کے خلاف فتح کا اعلان کیا تھا، لیکن اس تنظیم نے مارچ 2019 تک ہمسایہ ملک شام کے علاقے پر اپنی گرفت برقرار رکھی، جب اسے امریکی حمایت یافتہ، کرد زیرِ قیادت افواج کے ہاتھوں شکستِ فاش ہوئی تھی
داعش اور اس کی خود ساختہ "خلافت" کا عروج درخشاں اور عارضی دکھائی دیا۔ موصل پر اس کے قبضے نے اسے مختصر عرصے کے لیے عراقی علاقے کے تقریباً ایک تہائی حصے پر قبضہ کرنے میں مدد دی، اور ایک وقت کے لیے دارالحکومت بغداد پر ایک بڑے حملے کے حقیقی خدشات تھے
شہریوں، اقلیتوں اور مخالفین کے ساتھ بدسلوکیاں اس گروہ کی پہچان بن گئیں، جس کی صفوں میں ہزاروں غیر ملکی شہریوں کی آمد سے اضافہ ہوا تھا۔
رِچر نے کہا کہ داعش کے جرائم کی فہرست طویل ہے اور اس میں "نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم" شامل ہیں۔
بین الاقوامی انصاف
رِچر نے کہا کہ یونائیٹڈ نے اجتماعی قبروں کی قبر کشائی میں مقامی حکام کی مدد کی ہے اور "دنیا میں کسی بھی دائرہ اختیار کے لیے ثبوت تیار کرنے کے لیے کام کر رہا ہے جس کی ضرورت ہو ... حتیٰ کہ کئی دہائیوں کے اندر بھی"۔
"20 یا 30 برسوں میں، بین الاقوامی جرائم کے مرتکب افراد کو اب بھی سزا دی جا سکے گی۔ اس کی وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہ کینیڈا، ہالینڈ، ملائیشیا اور یقیناً عراق میں ہو سکتا ہے"۔
الخسفہ -- موصل کے جنوب میں ایک آبگیرہ جسے داعش اجتماعی قبر کے طور پر استعمال کرتی تھی -- کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں ہزاروں متاثرین کی باقیات موجود ہیں۔
مارچ 2017 کی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں، علاقے کے عینی شاہدین نے متاثرین کے قتل اور گڑھے میں پھینکے جانے کے واقعات بیان کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے وہاں کئی بار اجتماعی پھانسیاں دیے جانے کا منظر دیکھا ہے، بعض اوقات ہفتہ وار بنیادوں پر، جو کہ جون 2014 سے شروع ہو کر مئی یا جون 2015 تک جاری رہیں۔
پیر (5 دسمبر) کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی اپنی تازہ ترین رپورٹ میں، یونائیٹڈ نے داعش کے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری پر روشنی ڈالی۔
رپورٹ کے مطابق، پروگرام میں "کیمیائی ایجنٹوں کی ایک حد کی تیاری، جانچ پرکھ، ہتھیار سازی اور تعیناتی" شامل تھی۔
یونائیٹڈ نے سپائیچر کے قتل عام کی بھی تفتیش کی -- جب 1,700 کی تعداد تک "بیشتر شیعہ" عراقی فوجی کیڈٹوں کو ایک اڈے سے اغوا کر کے جون 2014 میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
دیگر مظالم جن کا جائزہ لیا گیا اُن میں موصل کے قریب بدُوش جیل میں سینکڑوں قیدیوں کی ہلاکتیں تھیں۔
یزیدیوں، ایک مذہبی اقلیت جن میں سے بہت سے مردوں کو پھانسی دی گئی تھی اور جن کی خواتین کو جنسی غلامی کے لیے اغوا کیا گیا تھا، کے خلاف جرائم کی تفتیش کی گئی تھی۔
سنہ 2014 میں شمالی عراق کے صوبہ نینوا میں سنجار پر اپنے حملے میں، داعش کے عناصر نے ہزاروں یزیدی مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا اور یرغمال بنایا، جن میں سے اکثر کا ابھی تک کوئی حساب نہیں ہوا ہے۔
سنجار اور قریبی قصبوں سے اب تک درجنوں اجتماعی قبریں ملی ہیں جن میں سینکڑوں یزیدی مقتولین کی لاشیں موجود ہیں۔
اقوام متحدہ نے سنجار پر ہونے والے حملے کو نسل کشی قرار دیا ہے۔
سنہ 2021 میں، جرمنی کی ایک عدالت نے داعش کے سابق رکن طحہٰ الجمیلی، جس نے پانچ سالہ یزیدی لڑکی کو زنجیروں میں جکڑ کر پیاس سے مرنے دیا تھا، کو نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی -- یہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ تھا
تاریخی مقدمے کی سماعت عالمگیر دائرۂ اختیار کے اصول کے تحت کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی قومی عدالت ایسے جرائم کے خلاف مقدمہ چلا سکتی ہے خواہ ان کا ارتکاب کہیں بھی ہوا ہو۔
"شاید مستقبل میں داعش کے جرائم پر ایک ٹربیونل بنے،" رِچر نے یہ کہتے ہوئے مزید کہا کہ یہ خیال "جاری بات چیت" سے مشروط ہے۔
'منصفانہ مقدمات'
عراقی حکام داعش کے قیدیوں کے اعداد و شمار جاری نہیں کرتے، مگر سنہ 2018 میں اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق اس کی جیلوں میں 12,000 سے زائد عراقی اور غیر ملکی "جنگجو" قید ہیں۔
رِچر نے مُصر تھے کہ یونائیٹڈ صرف ایسے "منصفانہ مقدمات" میں حصہ ڈال سکتی ہے، جہاں "تشدد یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے کسی عنصر" کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقدمات کا "منصفانہ اور شواہد پر مبنی ہونا لازمی ہے، بشمول وہ گواہ جو عدالت میں گواہی دے سکیں، متاثرین جو پوری کہانی سنا سکیں اور عدالت کو بتا سکیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا"۔
انہوں کا مزید کہنا تھا، "یہی ہمارا مقصد ہے، نہ کہ اعترافات پر مبنی مقدمات"
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس کام سے عراق میں مفاہمت کے حصول میں مدد ملے گی، ایک ایسا ملک جہاں کئی سالوں کی جنگ اور شورش نے اس کے متنوع سماجی تانے بانے کو بکھیر دیا ہے۔
انہوں نے کہا، "مصالحت ہمیشہ تحقیقات اور منصفانہ مقدمات کا نتیجہ ہوتی ہے جہاں متاثرین کی بات سنی جاتی ہے اور وہ اپنی کہانی سنا سکتے ہیں"۔