دہشتگردی

ٹی ٹی پی کے درجنوں جنگجوؤں کا کے پی میں توانائی کی تلاش کے مقام پر حملہ

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

پاکستانی فوجی 3 اگست 2021 کو صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی) کے ضلع خیبر میں پاکستان-افغانستان سرحدی باڑ کے ساتھ گشت کرتے ہوئے۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

پاکستانی فوجی 3 اگست 2021 کو صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی) کے ضلع خیبر میں پاکستان-افغانستان سرحدی باڑ کے ساتھ گشت کرتے ہوئے۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

پشاور -- پولیس اور توانائی فرم نے منگل (23 مئی) کے روز بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درجنوں عسکریت پسندوں کی جانب سے ہنگری کے ملکیتی تیل اور گیس کی تلاش کے مقام پر رات بھر کے محاصرے میں چھ سیکورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔

مقام افغان سرحد کے قریب ہے۔

اگست 2021 میں افغان جنگ کے خاتمے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ٹی ٹی پی زیادہ تر سیکیورٹی فورسز اور غیر ملکی مفادات کو نشانہ بنا کر حملے کرتی ہے جن پر وہ استحصال کرنے کا الزام عائد کرتی ہے۔

ضلعی پولیس کے سربراہ آصف بہادر نے اے ایف پی کو بتایا کہ تقریباً 50 جنگجوؤں نے صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی) کے ضلع ہنگو میں آدھی رات کے قریب بڈاپسٹ میں ہیڈ کوارٹر رکھنے والے ایم او ایل گروپ کی ملکیتی جگہ پر حملہ کیا۔

بہادر نے کہا، "وہ ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے اور انہوں مارٹر گولے داغے جس سے مرکزی دروازے پر چھ پہریدار ہلاک ہو گئے"۔

پولیس نے بتایا کہ مرنے والوں میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے چار ارکان اور دو پاکستانی پہریدار شامل ہیں۔

ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول کر لی

ایک مختصر بیان میں ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ اس کے جنگجوؤں نے "فرنٹیئر کانسٹیبلری کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا"۔

بہادر نے ٹی ٹی پی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا، "فائرنگ کا تبادلہ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت جاری رہا۔ پولیس نے عسکریت پسندوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا"۔

ایم او ایل گروپ نے ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کی لیکن کہا کہ اس کا کوئی ملازم ہلاک نہیں ہوا۔

اس نے ایک بیان میں کہا کہ حملے کی جگہ کے قریب دو کنوؤں کو "دور دراز تک رسائی کے ذریعے عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے اور کنویں اب محفوظ ہیں"۔

ایک دوسرے ضلعی پولیس اہلکار نور ولی خان نے بھی حملے اور ہلاکتوں کی تصدیق کی۔

اس کی ویب سائٹ کے مطابق، ایم او ایل گروپ سنہ 1999 سے پاکستان کا ایک ذیلی ادارہ چلا رہا ہے اور وہاں 400 افراد ملازم ہیں۔

اسلام آباد میں ہنگری کے سفارت خانے کے ترجمان نے کہا، "ہم معلومات کا جائزہ لے رہے ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ کسی سفارتی کارروائی کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔

حملہ آوروں کا تعلق شمالی وزیرستان سے

بہادر نے کہا کہ حملہ آور قریبی شمالی وزیرستان سے آئے تھے، جو کے پی کی طرح افغانستان کی سرحدوں سے متصل ہے اور تاریخی طور پر عسکریت پسندی کا ایک گڑھ رہا ہے۔

افغانستان میں 11/9 کے بعد امریکی قیادت میں جنگ کے دوران اسلام پسند جنگجوؤں کو شکست دینے کے لیے اسلام آباد کی عسکری کارروائی کے ذریعے اس علاقے کو بہت زیادہ نشانہ بنایا گیا ہے۔

ٹی ٹی پی سنہ 2007 میں اُن عسکریت پسندوں نے بنائی تھی جو افغانستان میں اپنے اتحادیوں سے الگ ہو گئے تھے تاکہ امریکہ کی زیر قیادت جنگی کوششوں کی حمایت کرنے پر اپنی لڑائی اسلام آباد پر مرکوز کر سکیں۔

اسلام آباد نے کہا ہے کہ اگست 2021 سے، ٹی ٹی پی کے جنگجو اپنے حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔

پیر کے روز، حکام نے بتایا کہ شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کے دو خالی سکولوں پر عسکریت پسندوں نے راتوں رات حملہ کیا، جس کے نتیجے میں نو کلاس روم تباہ ہوئے لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500