دہشتگردی

افغانستان کی فکروں کے درمیان امریکہ کی جانب سے ٹی ٹی پی رہنماء اور القاعدہ کے ارکان دہشت گرد نامزد

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

کابل میں تباہ شدہ تعلیمی مرکز کا ایک منظر جہاں 30 ستمبر کو ایک خودکش بمبار نے درجنوں افراد کو ہلاک اور زخمی کیا تھا۔ [اے ایف پی]

کابل میں تباہ شدہ تعلیمی مرکز کا ایک منظر جہاں 30 ستمبر کو ایک خودکش بمبار نے درجنوں افراد کو ہلاک اور زخمی کیا تھا۔ [اے ایف پی]

جمعرات (1 دسمبر) کے روز امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جنوب ایشیائی القاعدہ کے رہنماؤں کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے، اور افغانستان کے رجحانات پر خطرے کی گھنٹی بڑھنے پر کارروائی کا عزم ظاہر کیا ہے۔

واشنگٹن کو تشویش ہے کہ دہشت گرد گروہ افغانستان کو تربیت اور کارروائیوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔

امریکہ نے ٹی ٹی پی کے نمبر دو مفتی حضرت دیروجی، جو قاری امجد کے نام سے بھی معروف ہے، کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔ گزشتہ سال سے ٹی ٹی پی کی 15 سالہ پُرتشدد مہم میں تیزی آئی ہے، اور اس ہفتے کے شروع میں اس گروپ نے حکومت کے ساتھ متفقہ جنگ بندی کو منسوخ کر دیا ہے اور اپنے جنگجوؤں کو ملک بھر میں حملے کرنے کا حکم دے دیا ہے.

پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پپس)کے مطابق، سنہ 2021 کے بعد سے، پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 50 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ دیروجی نے صوبہ خیبر پختونخوا میں کارروائیوں کی نگرانی کی ہے، پاکستان کے دو سرحدی علاقوں میں سے ایک، جو پُرتشدد حملوں کا شکار ہوئے ہیں۔ دوسرا متاثرہ سرحدی علاقہ صوبہ بلوچستان ہے.

اے کیو آئی ایس کے رہنماء نامزد

ہدف بننے والے باغیوں میں القاعدہ برصغیر پاک و ہند (اے کیو آئی ایس) کے چار قائدین شامل ہیں، جو باغیوں کے نیٹ ورک کی ایک علاقائی شاخ ہے، بشمول خود ساختہ اے کیو آئی ایس کا "امیر" اسامہ محمود۔

امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ نامزدگیاں "ہماری انتھک کوششوں کا جزو ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ دہشت گرد افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال نہ کریں"۔

بلنکن نے کہا، "ہم اپنے اس عزم کو برقرار رکھنے کے لیے تمام متعلقہ ذرائع کا استعمال جاری رکھیں گے کہ بین الاقوامی دہشت گرد افغانستان میں استثنیٰ کے ساتھ کام کرنے کے قابل نہ ہوں"۔

امریکی محکمۂ خارجہ اور محکمۂ خزانہ نے ان چاروں کو خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گردوں کے طور پر درج کیا، جس سے ریاستہائے متحدہ امریکہ میں ان کے ساتھ لین دین میں ملوث ہونا اور ملک میں ان کے کسی بھی اثاثے کو روکنا جرم بن گیا ہے۔

دہشت گردوں کو ڈھونڈنا اور مارنا

اگرچہ امریکہ اب افغانستان میں مزید موجود نہیں ہے، اس نے سنہ 2021 کے وسط سے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے وہاں "ناگزیر" کارروائیاں کرنے کے اپنے وعدے کو برقرار رکھا ہے۔

یہ 31 جولائی کو اپنے قول پر ثابت رہا، جب اس نے دو میزائل فائر کیے جس سے القاعدہ کا رہنماء ایمن الظواہری ہلاک ہو گیا، جو کابل منتقل ہو گیا تھا۔

الظواہری کابل میں رہ رہا تھا حالانکہ امریکہ کو یہ یقین دہانیاں کروائی گئی تھیں کہ افغانستان القاعدہ کو پناہ گاہیں فراہم نہیں کرے گا۔ دہشت گرد گروہ نے 9/11 کے حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے افغانستان کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا تھا۔

ستمبر 2019 میں، صوبہ ہلمند میں ایک مشترکہ چھاپے میںامریکی اور افغان افواج نے اے کیو آئی ایس کے بانی عاصم عمر کو ہلاک کر دیا تھا

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ٹی ٹی پی کو پاکستان کی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے تشکیل دیا۔ 1948 میں برطانوی جرنیل رابرٹ کاتھوم نے آئی ایس آئی تشکیل دی۔ قارئین وکی پیڈیا انگلش پر آئی ایس آئی کی تشکیل و تاریخ سے متعلق معلومات پڑھ سکتے ہیں، جسے برطانیہ نے پیدا کیا۔ آئی ایس آئی نے پختونخواہ کے پشتون رہنماؤں کو قتل کرنے اور دوسری جانب امریکہ اور دیگر مغربی عالم سے دسیوں لاکھوں ڈالر حاصل کرنے کے لیے ٹی ٹی پی گروہ بنایا۔ پشتون علاقوں میں ٹی ٹی پی آپریشنز اور پاکستان کی مرتد فوج کے آپریشنز میں قتل ہونے والے تمام متاثرین پشتون ہیں۔ پاکستان کی مرتد فوج 45 برس سے بیرونِ ملک افغانوں کو قتل کر رہی ہے اور 15 برس سے پختونخوا کے عوام کو قتل کر رہی ہے اور ان کی تجارت میں خلل انداز ہو رہی ہے۔

جواب