دہشتگردی

ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے، ملک گیر حملوں کا حکم دینے کے بعد پاکستان پُرتشدد کارروائیوں کے لیے تیار

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

سیکیورٹی اہلکار 16 نومبر کو ضلع لکی مروت کے گاؤں شہاب خیل میں گھات لگا کر کیے گئے حملے میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ میں شریک ہیں۔ [سٹرنگر/اے ایف پی]

سیکیورٹی اہلکار 16 نومبر کو ضلع لکی مروت کے گاؤں شہاب خیل میں گھات لگا کر کیے گئے حملے میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ میں شریک ہیں۔ [سٹرنگر/اے ایف پی]

پاکستانی طالبان نے پیر (28 نومبر) کے روز کہا کہ انہوں نے جون میں حکومت کے ساتھ طے پانے والی متزلزل جنگ بندی کو ختم کر دیا ہے اور جنگجوؤں کو ملک بھر میں حملے کرنے کا حکم دیا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سنہ 2007 میں اپنے ظہور کے بعد سے پاکستان بھر میں درجنوں پُرتشدد حملوں اور ہزاروں ہلاکتوں کی ذمہ دار رہی ہے۔

ایک بیان میں اس کا کہنا تھا، "چونکہ مختلف علاقوں میں مجاہدین کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہیں ... اس لیے آپ کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ پورے ملک میں جہاں کہیں بھی حملہ کر سکیں، کریں"۔

ٹی ٹی پی نے ایک وقت کے لیے پاکستان کی ناہموار قبائلی پٹی کے وسیع رقبے پر اپنا قبضہ جما رکھا تھا، جس نے اسلامی شریعت کی ایک بنیاد پرست شکل نافذ کی ہوئی تھی۔

اس کے جنگجوؤں کو سنہ 2010 سے بڑے پیمانے پر پاکستان سے ہمسایہ ملک افغانستان میں بھگا دیا گیا تھا لیکن اگست 2021 سے افغانستان میں ہونے والے واقعات نے ان کا حوصلہ بڑھایا ہے۔

ٹی ٹی پی نے جون میں پاکستانی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کی تھی، لیکن دونوں فریقوں نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ جنگ بندی کو نظر انداز کیا گیا اور متعدد جھڑپیں ہوئیں۔

اس ماہ کے شروع میں ٹی ٹی پی کی جانب سے چھ پولیس اہلکاروں کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا تھا جب وہ شہاب خیل گاؤں میں گشت کر رہے تھےجو افغان سرحد سے 100 کلومیٹر دور ہے۔

ٹی ٹی پی سنہ 2007 اور 2009 کے درمیان پاکستان میں اپنی طاقت کے عروج پر تھی، جب اسلام آباد سے صرف 135 کلومیٹر شمال میں واقع وادی سوات پر اس کا قبضہ تھا۔

انہیں فوج کی کارروائی کے ذریعے اُس وقت افغانستان میں دھکیل دیا گیا تھا جب انہوں نے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں قتلِ عام کا ارتکاب کیا تھا جس میں سنہ 2014 میں پشاور میں 150 سے زائد طلباء اور اساتذہ شہید ہو گئے تھے.

اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اکتوبر 2021 میں اعلان کیا تھا کہ حکومت سنہ 2014 کے بعد پہلی بار تنظیم کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔

دہشت گردی کے متاثرین کے لواحقین اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی جانب سے اس فیصلے پر شدید تنقید کی گئی تھی.

اُس وقت فیصل علی، جس کا ایک 12 سالہ رشتے دار اے پی ایس کے قتلِ عام میں شہید ہوا تھا، نے کہا تھا، "ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں سے بات کرنا دہشت گردی میں شہید ہونے والے ہزاروں بے گناہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے"۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کو معافی کی پیشکش کر کے، حکومت نے عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی کی ہے، جنہوں نے کبھی بھی دہشت گرد کارروائیاں کرنا بند نہیں کیں۔

کراچی میں انسدادِ دہشت گردی پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مئی میں پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ گزشتہ برس کے دوران ٹی ٹی پی کو اعتماد ملا ہے.

اسلام آباد کے مقامی دفاعی تھنک ٹینک، پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پپس)کے مطابق، پاکستان میں سنہ 2021 میں گزشتہ سال کے مقابلے میں دہشت گرد حملوں میں 42 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

سنہ 2022 کے اوائل میں پپس نے مشاہدہ کیا کہ اکیلے سنہ 2021 میں ہی ٹی ٹی پی 87 حملوں (سنہ 2020 کے مقابلے میں 84 فیصد زیادہ) کی ذمہ دار تھی، جس میں 158 افراد جاں بحق ہوئے۔

مئی میں انسداد دہشت گردی کے اہلکار نے کہا، "ایسی صورتحال میں، ٹی ٹی پی کو معافی کی پیشکش کر کے، حکومت نے ناصرف دہشت گرد تنظیم کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ اسے تسلیم بھی کیا ہے"۔

اکتوبر 2021 میں جب خان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کیا تو سول سوسائٹی کے کارکنوں اور دہشت گردی کے متاثرین کے لواحقین نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ماضی کے امن معاہدے امن کی بحالی میں ناکام رہے اور اس کی بجائے عسکریت پسند گروہ کو حوصلہ اور تقویت ملی۔

ٹی ٹی پی کے رہنماؤں نے سنہ 2004، 2005، 2006 اور 2009 میں کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کی تھی۔

پاکستان، امریکہ اور اقوامِ متحدہ نے ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 4

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

کیا یہ سب پاکستانی مدرسوں کے پیداوار نھی ھے؟

جواب

منافقین کی اولادیں قیامت تک ظاظاہر ھوتی رہینگی

جواب

اس وقت 27 گروپ ھی۔ جو خود کو ایک ھی طالبان کا مین گروپ کہتے ھیں یہ اسلام کی کونسی خدمت کر رھے ھیں ان کے نزدیک اسلام کے بجاۓ اپنے آپ کو مشہور کرنا ھے معصومین کو شہید کر کے کون سے اسلام کو زندہ کر رھے ھیں نبی پاک صلی اللہ وسلم نے بچوں اور خواتین کو جنگ میں بھی قتل کرنے سے منع کیا ھے ہر گروپ اپنا اسلام۔ نہ بناۓ اسلام وہ ھے جو اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم نے قرآن اود سنت کے زریعے ۔ھم تک پہنچانا اسلام ان کی بندوقوں سے نہیں نکلا جب ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن ھو رھا تھا تو یہ افغانستان کیوں بھاگ گۓ ان کے لیے کلاشنکوف والا اسلام اور ھمیں اللہ کا اور اس کے رسول والا اسلام چاہیے

جواب

قوم کے ٹیکس کے پیسے، ہمارے قیمتی تربیت یافتہ جوانوں کی جانیں، مقامی افراد کی قیمتی جانیں اور املاک اور انفراسٹرکچر کی قربانیاں دے دے کر پھر آخر پر ان دہشتگردوں کے ساتھ امن معاہدہ کیوں کیا گیا۔۔۔۔؟؟؟ کیا ہم اتنا کچھ کر کے بھی یہ حق نہیں رکھتے کہ باجوے سے پوچھا جاۓ کہ کیوں ایسا کیا ؟؟؟ ان کو برباد کرنے کی بجاۓ ان کے ساتھ امن معاہدہ کر کے ان کی حوصلہ افزائی کیوں کی گئی۔۔۔!!!؟؟

جواب