معیشت

امریکہ کا خیراتی ادارہ قندھار اور ہرات میں افغانوں کو پیشہ ورانہ تربیت اور امید دے رہا ہے

از عمر

ہرات اور قندھار صوبوں میں 1,600 سے زیادہ نوجوان افغان شہری، امریکی امداد سے چلنے والے پروگرام کے ذریعے پیشہ ورانہ مہارتیں سیکھ رہے ہیں۔ امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے 3 اگست کو صلاحیت سازی اور ملازمت کے تربیتی پروگرام کا آغاز کیا، جسے امریکہ میں قائم خیراتی ادارے مرسی کورپس نے نافذ کیا ہے۔ [عمر/سلام ٹائمز]

ہرات، افغانستان -- ہرات اور قندھار صوبوں میں، 1,600 سے زیادہ نوجوان افغان شہری، امریکی امداد سے چلنے والے پروگرام کے ذریعے پیشہ ورانہ مہارتیں سیکھ رہے ہیں۔

شرکاء میں نصف سے زیادہ خواتین ہیں۔

امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے 3 اگست کو صلاحیت سازی اور ملازمت کے تربیتی پروگرام کا آغاز کیا، جسے امریکہ میں قائم خیراتی ادارے مرسی کورپس نے نافذ کیا ہے۔

چھ ماہ کی مدت کا یہ پروگرام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور نوجوانوں کی ہجرت کا سامنا کر رہا ہے۔

افغانستان کے شہر ہرات میں 30 اگست کو طالبات کو، ابتدائی طبی امداد کے تربیتی کورس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ [عمر/سلام ٹائمز]

افغانستان کے شہر ہرات میں 30 اگست کو طالبات کو، ابتدائی طبی امداد کے تربیتی کورس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ [عمر/سلام ٹائمز]

افغانستان کے شہر ہرات میں 30 اگست کو خواتین ایک کلاس میں کڑھائی کرنا سیکھ رہی ہیں۔ [عمر/سلام ٹائمز]

افغانستان کے شہر ہرات میں 30 اگست کو خواتین ایک کلاس میں کڑھائی کرنا سیکھ رہی ہیں۔ [عمر/سلام ٹائمز]

امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس منصوبے کے لیے 3 ملین ڈالر فراہم کیے ہیں۔

افغانستان میں مرسی کور کے ملکی ڈائریکٹر جیک برن نے کہا کہ ہرات اور قندھار میں چھ مراکز میں نوجوان افغان شہری، 18 پیشوں میں مہارتیں حاصل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ "ہم طویل مدت کے لیے ایک ہنر مند افرادی قوت تیار کرنا چاہتے ہیں اور یہ منصوبہ قلیل مدتی نہیں ہوگا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے 9 سے 10 مہینوں میں اس منصوبے کے تحت حصہ لینے والے تمام تربیت کنندگان، لیبر مارکیٹ میں ہنر مند کارکنوں کے طور پر داخل ہوں گے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "اس منصوبے کا بنیادی مقصد نوجوانوں کو ملازمتیں تلاش کرنے اور اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔"

برن نے کہا کہ مرسی کور جلد ہی چار دیگر منصوبے شروع کرے گا جن کا مقصد، افغانستان کے دیہی علاقوں میں پینے کے پانی کی فراہمی اور زراعت کو امریکی حکومت کی مالی معاونت سے مدد فراہم کرنا ہے۔

بہتر مستقبل کی امید

مرسی کور کی طرف سے پیش کی جانے والی تربیت نے شرکاء اور خصوصی طور پر افغان خواتین کو ایک بہتر مستقبل کی امید دلائی ہے۔

بی بی گل نبی زادہ، جن کی عمر 32 سال ہے، ہرات شہر میں مرسی کور کے تربیتی مرکز میں قالین بُننا سیکھ رہی ہیں۔ اس نے پچھلے ایک مہینے میں بُنائی کی بنیادی باتیں سیکھ لی ہیں اور چھ ماہ کے کورس سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ اعلیٰ معیار کے قالین بنانے کی خواہش رکھتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ قالین بُننے کے کورس میں شامل ہونے سے پہلے بے روزگار تھیں لیکن اب اپنے مستقبل کے بارے میں پر امید اور پرجوش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میں پیشہ ورانہ طور پر قالین بُننا سیکھنا چاہتی ہوں تاکہ میں معیاری قالین تیار کر سکوں، اپنے معاشرے کی خدمت کر سکوں اور افغانستان کی قالین کی صنعت کی مدد کر سکوں۔"

نبی زادہ نے کہا کہ "میرے شوہر بے روزگار ہیں اور ہماری گھریلو معیشت کمزور ہے۔ میں آمدنی کمانا اور اپنے خاندان کی کفالت کرنا چاہتی ہوں۔"

صدف یوسفی جن کی عمر 24 سال ہے، ہرات شہر میں مرسی کور پیشہ ورانہ تربیتی مرکز میں کڑھائی سیکھ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسے اپنی زندگی کی امید دوبارہ حاصل ہوئی ہے اور وہ ہر روز کلاسوں میں شرکت کے لیے پرجوش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میں گزشتہ سال ہرات یونیورسٹی کی سائنس فیکلٹی میں دوسرے سال کی طالبہ تھی۔ تاہم، میں اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکی اور معاشی مشکلات کی وجہ سے مجھے تعلیم چھوڑنا پڑی۔ مجھے گھر میں رہنا پڑا اور یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔"

یوسفی نے کہا کہ "میری دماغی صحت بہتر ہوئی ہے اور اب مجھ میں اتنا جذبہ پیدا ہوا ہے کہ میں کڑھائی کی کلاس میں جاتی ہوں۔ میں مستقبل میں کڑھائی سکھانے والی استاد بننا چاہتی ہوں اور دیگر خواتین اور لڑکیوں کو یہ ہنر منتقل کرنا چاہتی ہوں۔"

زہرہ محمدی، جن کی عمر 21 سال ہے اور جو یوسفی کی طرح ہرات شہر میں کڑھائی سیکھ رہی ہیں، نے کہا کہ ملک کے مشکل حالات میں افغان خواتین کو ہنر سیکھنے کا موقع فراہم کرنا بہت موثر اور قیمتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "میں بے روزگار تھی اور گھر میں تھکن محسوس کرتی تھی۔ تاہم، اب جب کہ میں کڑھائی سیکھ رہی ہوں، میں خود کو بااختیار محسوس کرتی ہوں اور اپنی زندگی میں انقلاب لانے کی امید کرتی ہوں۔"

انہوں نے کہا کہ "میرے پاس ہائی اسکول کا ڈپلومہ ہے، لیکن معاشی مسائل کی وجہ سےمیں، نہ تو کانکور (یونیورسٹی کے داخلے) کے امتحان کی تیاری کر سکی اور نہ ہی یونیورسٹی جانا شروع کر سکی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "میں خوش ہوں کہ میں اپنے خاندان کی کفالت کر سکتی ہوں۔"

نوجوانوں کی نقل مکانی کو روکنا

مرسی کور کے تعاون سے، پیشہ ورانہ مہارت کے کورسز میں حصہ لینے والوں میں سے تقریباً نصف نوجوان ہیں، اور بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کورسز میں حصہ لینے کے بعد، اپنے ہجرت کے پچھلے منصوبوں پر دوبارہ غور کیا ہے۔

قاسم حجاتی جن کی عمر 29 سال ہے اور جو صوبہ ہرات کے ضلع گوزارہ کے رہائشی ہیں، نے حال ہی میں ہرات شہر میں مرسی کور کے تربیتی مرکز میں موبائل فون کی مرمت کرنے کا طریقہ سیکھنے کے لیے ایک کلاس میں شمولیت اختیار کی۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے مہینے کورس شروع کرنے کے بعد سے انہوں نے اسمارٹ فونز کی مرمت کی بنیادی باتیں پہلے ہی سیکھ لی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میں بے روزگاری کا شکار تھا اور میں نےغیر قانونی طور پر ایران ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم، میں نے تربیتی کورس میں شرکت شروع کرنے کے بعد اپنے فیصلے پر نظرثانی کی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "بہت سے نوجوانوں نے پیشہ ورانہ مہارت کے کورس میں شامل ہونے سے پہلے کام کرنے کے لیے پڑوسی ممالک میں جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ ایک حیرت انگیز پہلکاری ہے اور اس نے بہت سے نوجوانوں کو بیرون ملک فرار ہونے سے روک دیا ہے۔"

حجتی نے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ انہوں نے اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور امید ہے کہ وہ پیشہ ورانہ کورس مکمل کرنے کے بعد جلد ہی نوکری تلاش کر کے پیسے کمائیں گے۔

ساجد حیدری جن کی عمر 29 سال ہے، نے بتایا کہ جب اس نے ہرات شہر کے مرسی کور سینٹر میں لوہار کی کلاس میں داخلہ لیا تو وہ بے روزگاری سے بچ گیا۔

انہوں نے کہا کہ "میں نے پہلے ہرات کے کسٹمز ڈپارٹمنٹ میں کام کیا تھا لیکن تقریباً ایک سال پہلے میری نوکری ختم ہو گئی۔ میں بے روزگار ہونے سے تنگ آ گیا اور بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا۔ میں بہت خوش ہوں کہ میں نے اس منصوبے میں داخلہ لیا اور مجھے ہجرت پر مجبور نہیں ہونا پڑا۔"

حیدری نے کہا کہ "میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ افغان نوجوانوں کی مدد کریں تاکہ وہ غیر قانونی اور خطرناک راستوں سے نوکری تلاش کرنے کے لیے پڑوسی ممالک جانے پر مجبور نہ ہوں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "بدقسمتی سے ہمارے ہزاروں نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500