ہرات -- مغربی افغانستان میں شدید اقتصادی مشکلات اور غربت کے درمیان مزدور بچوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہونے پر، تین بین الاقوامی اداروں نے بچوں کی مدد کے لیے ایک مشترکہ منصوبہ شروع کیا ہے۔
اقوام متحدہ (یو این)، یورپی یونین (ای یو) اور جرمن مالی امداد سے چلنے والی امدادی تنظیم نے 1,600 سے زائد افغان بچوں، جو چائلڈ لیبر پر مجبور کر دیے گئے تھے، کی مدد کے لیے ایک پہل کاری کا آغاز کیا ہے۔
8 مئی کو آغاز کی گئی، اس پہل کاری میں بچوں کے لیے پیشہ ورانہ کورسز پیش کیے گئے ہیں اور کام کرنے والے بچوں کے خاندانوں میں نقد امداد تقسیم کی جاتی ہے۔
24 مہینوں کے لیے، ہر گھرانے کو اپنے بچوں کو کام پر بھیجنے سے روکنے کی ترغیب کے طور پر خاندانوں کو ہر ماہ 80 ڈالر ملیں گے۔
15 سال سے کم عمر کے ہر بچے کے لیے، خاندان کے ایک بالغ فرد کا بھی اس پہل کاری کے پیشہ ورانہ تربیتی پروگرام میں اندراج کیا جا سکتا ہے۔ اس پہل کاری کے پہلے مرحلے میں طلباء و طالبات کو پیشہ ورانہ زندگی کے لیے تیار کرنے والے چھ ماہ کے کورسز شامل ہیں۔
مغربی افغان شہر ہرات کے محنت کش بچوں میں سے 40 فیصد سے زائد لڑکیاں ہیں جو معاشی مشکلات کی وجہ سے دکانداروں کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔
7 شعبوں میں کورسز
انصاری تکنیکی و حرفتی مرکز کے ڈائریکٹر فریدون رحمان یار نے کہا کہ ان کا مرکز سات شعبوں میں چھ ماہ کے حرفتی کورسز پیش کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، "یہ شعبے درزی گیری، دستکاری، قالین کی بُنائی، بڑھئی گیری، سیل فون کی مرمت، بجلی کا کام اور ٹی وی کی مرمت ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ یہ مرکز حصہ لینے والے نوجوانوں یا بالغوں کو فارغ التحصیل ہونے کے بعد ملازمت کے بازار میں مواقع تلاش کرنے میں بھی مدد دے گا۔
انہوں نے کہا، "پچاس فیصد طلباء و طالبات شہر سے اور 50 فیصد ہرات کے کوہسان، کیشک رباط سانگی، اور پشتون زرغون اضلاع سے آتے ہیں۔"
ہرات شہر کی سڑکوں پر محنت کش بچوں کی تعداد میں حالیہ مہینوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سنگین معاشی حالات ہیں۔
ہرات کے صوبائی محکمۂ محنت اور سماجی امور کے مطابق نو ماہ قبل 9,000 محنت کش بچوں کو بطور مزدور رجسٹر کیا گیا تھا۔ صوبے بھر میں اب یہ تعداد 15،000 سے تجاوز کر چکی ہے۔
روشن تر مستقبل کی امیدیں
بہت سے بچے جو اب سڑکوں پر کام نہیں کر رہے ہیں پیشہ ورانہ کلاسوں میں داخلہ لینے کے بعد سے اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پُر امید نظر آتے ہیں۔
ان بچوں نے کچرا جمع کرکے، جوتے چمکا کر، اور یہاں تک کہ بھیک مانگ کر اپنے خاندان کی کفالت کے لیے سخت جدوجہد کی ہے۔
چھ افراد پر مشتمل خاندان کے سب سے بڑے بیٹے 17 سالہ محمود نے کہا کہ اس کے پاس سکول چھوڑنے اور سڑکوں پر کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ اس کے والد بیمار ہو گئے تھے اور اس کا خاندان معاشی مشکلات کا شکار تھا۔
انہوں نے کہا، "سڑکوں پر کام کرنا بہت مشکل تھا۔ کچھ لوگوں نے میرا مذاق اڑایا، لیکن مجھے اپنے خاندان کے لیے روزی کمانی پڑی۔"
محمود ہرات شہر کا کچرا جمع کرتا تھا اور پھر ایک دن میں اپنی جمع کردہ اشیاء کو بمشکل 100 سے 150 افغانی ( 1.12 سے 1.68 ڈالر) میں فروخت کرتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ "جب سے میں نے پیشہ ورانہ کورس میں شرکت شروع کی ہے میں بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ میں الیکٹریشن بننے کے لیے تعلیم حاصل کر رہا ہوں اور بہت پُر امید ہوں کہ میں اپنے لیے ایک اچھا مستقبل بنا سکوں گا۔"
سولہ سالہ احمد فیضان بھی ہرات شہر کی گلیوں سے کچرا اٹھا کر فروخت کرتا تھا۔
انہوں نے کہا، "میں سخت گرمی کے دنوں اور شدید سردی کے دنوں میں سڑکوں پر کام کرتا تھا۔ میں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکا۔ اب اپنی پیشہ ورانہ کلاس کے علاوہ، میں انگریزی اور کمپیوٹر کی کلاسوں میں بھی شرکت کر سکتا ہوں۔"
انہوں نے مزید کہا، "میں بہت شکر گزار ہوں کہ مختلف قسم کے ٹی وی کی مرمت کرنے کا طریقہ سیکھنے کے بعد، میں اپنے خاندان کے لیے روزی کما سکتا ہوں اور اپنے ملک کی خدمت کر سکتا ہوں۔"
سکول جانے کا موقع
نئی بین الاقوامی پہل کاری کے تحت سینکڑوں بچے جو چائلڈ لیبر پر مجبور ہو گئے تھے سکول واپس آنے کے قابل ہو گئے ہیں۔
8 سالہ زبیر ان بچوں میں سے ایک ہے۔
اس کی بہن، 21 سالہ عبیدہ، نے ایک پیشہ ورانہ تربیتی کورس میں اندراج کروایا ہے اور اب اس کا کہنا ہے کہ مشترکہ پہل کاری سے اس کے خاندان کو ملنے والی ماہانہ نقد امداد نے زبیر کی سڑک پر مزدوری کرنے کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے۔
اس نے کہا، "غربت اور معاشی دباؤ کی وجہ سے، ہم نے اپنے بھائی کو کام پر بھیجا، اور وہ کچرا جمع کرکے اور بیچ کر روزانہ 50 سے 100 افغانی (56 سینٹ سے 1.12 ڈالر) کماتا تھا"۔
اس نے مزید کہا، "لیکن جب سے میں نے پیشہ ورانہ پروگرام میں شمولیت اختیار کی ہے، اب میرے خاندان میں ہر کوئی خوش ہے۔ زبیر سکول جا کر بہت خوش ہے"۔
عبیدہ نے کہا کہ وہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد درزن کے طور پر کام کرنا شروع کر دیں گی اور زبیر کو دوبارہ سڑکوں پر کام نہیں کرنے دیں گی۔
40 سالہ ملالئی نے کہا کہ اس کا 11 سالہ بیٹا محمد قاسم اب سڑکوں پر جوتے چمکانے کے بجائے سکول جانے کے قابل ہے۔
چار بچوں کی ماں ، ملالئی نے کہا، "محمد قاسم میرا بڑا بیٹا ہے، اور ہم اسے کام پر بھیجنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ میرے شوہر بیمار ہیں، اور وہ کام نہیں کر سکتے۔ میرا بیٹا روزانہ 100 افغانی کماتا تھا، اور اس رقم سے ہم اپنا گزارہ کرتے تھے"۔
انہوں نے مزید کہا، "میں بہت خوش ہوں کہ مجھے کپڑے سینا سیکھنے کا موقع ملا ہے اور میرا بیٹا سکول جا سکتا ہے۔ محمد قاسم اب اپنی پڑھائی میں مصروف ہے اور میلے کپڑوں کی بجائے سکول کی وردی پہنتا ہے۔"