ہرات، افغانستان -- ایرانی حکام مبینہ طور پر، دستاویزات نہ رکھنے والے افغان پناہ گزینوں کو، ملک بدری کے لیے راغب کرنے کے لیے رہائشی اجازت ناموں کا استعمال کر رہے ہیں۔
ایرانی حکومت نے 4 مئی سے، مردم شماری میں حصہ لینے کی ترغیب دینے کے لیے، غیر دستاویزی افغان پناہ گزینوں کو چھ ماہ کے رہائشی اجازت نامے کی پیشکش شروع کی تھی۔
حکام نے مردم شماری کو 22 جون تک بڑھا دیا ہے۔
تاہم، افغان مہاجرین کے مطابق، تازہ ترین اقدام، ایران سے پناہ گزینوں کو گرفتار کرنے اور نکالنے کے لیے محض ایک چال ہے۔
دائیکنڈی صوبے کے رہائشی حسن قربانی، جنہیں حال ہی میں ایران سے ملک بدر کیا گیا ہے، نے 5 جون کو ہرات شہر میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ میں کہا کہ ان کے آجر نے ان سے اجازت نامے کے لیے درخواست دینے کو کہا۔
انہوں نے کہا کہ "میں رہائشی کارڈ حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑا تھا، لیکن پولیس آئی اور سارے لوگوں [60] کو گرفتار کر لیا اور وہ ہمیں جیل لے گئے۔ ہم نے ایک رات حراست میں گزاری اور اگلے دن ہمیں ملک بدر کر دیا گیا"۔
قربانی نے کہا کہ ایرانی فورسز نے ان کی رقم اور موبائل فون ضبط کر لیے۔
کیمپ میں موجود، بامیان صوبے کے ایک رہائشی جواد خادمی نے بھی کہا کہ ایران کا رہائشی اجازت ناموں کی تقسیم کا اصل مقصد اقوام متحدہ سے فنڈز حاصل کرنا تھا۔
قربانی کی طرح، انہوں نے کہا کہ اس نے رہائشی اجازت نامہ کے لیے درخواست دی لیکن اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے لائن میں انتظار کرتے ہوئے حراست میں لے لیا گیا۔
خادمی نے مزید کہا کہ "رہائشی اجازت ناموں کی تقسیم، افغان مہاجرین کے لیے محض ایک جال ہے۔ حال ہی میں ملک بدر کیے گئے زیادہ تر افراد کا دعویٰ ہے کہ انھیں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اجازت نامے کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔"
مقامی افغان حکام کے مطابق، ایرانی حکومت روزانہ 2,500 سے 3,000 افغان مہاجرین کو ملک بدر کر رہی ہے۔
غیرقانونی گرفتاریاں
دریں اثنا، رہائشی اجازت نامے حاصل کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
صوبہ غور کے رہائشی، عبدالرحمن رحیمی جو ہرات شہر میں پناہ گزین کیمپ میں رہائش پذیر ہیں نے کہا کہ ایرانی پولیس نے افغان مہاجرین کو حراست میں لے کر نکال دیا ہے حالانکہ ان کے پاس رہائشی اجازت نامے موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ "ایرانی پولیس پناہ گزینوں کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے رہائشی اجازت ناموں کو تباہ کر دیتی ہے۔"
بادغیس کے رہائشی علی احمد عزیزی، جنہیں حال ہی میں اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ ملک بدر کیا گیا تھا، نے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ میں بتایا کہ انہیں چھ ماہ کا رہائشی اجازت نامہ صرف دو ہفتے قبل ہی ملا تھا۔
پھر بھی، ایرانی پولیس نے اس کے پورے خاندان کو گرفتار کرنے کے بعد ملک بدر کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ "بہت زیادہ مصائب کے باوجود، میں چھ ماہ کا رہائشی اجازت نامہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا، تاہم، مجھے نوکری نہیں مل سکی۔ طویل انتظار کے بعد، جب میں نے بالآخر تہران کے ایک باغ میں نوکری حاصل کر لی، تو پولیس آئی، مجھے ہتھکڑیاں لگا کر جیل لے گئے"۔
انہوں نے کہا کہ جب میں نے اپنے رہائشی اجازت نامے دکھائے تو ایرانی پولیس نے انہیں پھاڑ دیا اور کہا کہ ایران میں ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
عزیزی نے کہا کہ ایران صرف پناہ گزینوں سے رقم وصول کرنے اور پھر انہیں ملک بدر کرنے کے لیے اجازت نامے تقسیم کرتا ہے۔
جبر اور بھتہ خوری
تازہ ترین منصوبہ، ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایرانی حکام کے ہاتھوں تشدد اور بھتہ خوری کی مسلسل اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔
صوبہ غزنی کے رہائشی حبیب اللہ سادات نے جسے حال ہی میں ایران سے جلاوطن کیا گیا تھا، کہا کہ ایرانی فورسز نے ان سے 2 ملین ایرانی ریال (47 ڈالر) بھتہ وصول کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "جب تہران میں پولیس ایک تعمیراتی جگہ پر میرے پیچھے آئی تو انہوں نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا، ہتھکڑیاں لگائیں اور قید کر دیا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "مجھے تین دن تک بیت الخلا میں بند رکھا گیا۔ وہ مجھے ہر 12 گھنٹے بعد ایک روٹی کا ایک ٹکڑا دہی کا ایک چھوٹا ڈبہ اور پانی کی بوتل دیتے تھے۔ مجھے اپنا کھانا اسی باتھ روم میں کھانے پر مجبور کیا گیا جہاں میں رفع حاجت کرتا تھا"۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی پولیس نے بار بار ان سے رقم وصول کی اور جب انہیں افغانستان ملک بدر کیا گیا تو اس کے پاس کوئی نقدی نہیں بچی تھی۔
ہرات کے رہائشی محمد قاسم عثمانی، جنہیں 5 جون کو ایران سے ملک بدر کیا گیا تھا، نے بھی کہا کہ انہوں نے ایرانی پولیس کو، افغان مہاجرین پر وحشیانہ تشدد کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ایرانی پولیس نے پناہ گزینوں کو مارنے کے لیے جو کچھ ان کے پاس تھا استعمال کیا۔ وہ کسی پر رحم نہیں کرتے اور یہاں تک کہ بچوں اور نوعمروں کو بجلی کے جھٹکے اور تاروں سے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "میں اپنے آجر سے 6 ملین ایرانی ریال (141 ڈالر) کی اپنی اجرت واپس نہیں لے سکا۔ میں نے پولیس سے درخواست کی کہ مجھے میری اجرت لینے کی اجازت دی جائے لیکن انہوں نے مجھے اجازت نہیں دی۔ یہاں تک کہ انہوں نے مجھے کمرے سے اپنے کپڑے اور جوتے لینے تک نہیں دیے"۔
عثمانی نے مزید کہا کہ اس کے آجر نے اس کی ڈیڑھ ماہ کی تنخواہ ادا نہیں کی اور اس کے ساتھ ہی، پولیس نے 300,000 ایرانی ریال (7 ڈالر) نقدی بھی لے لی جو اس وقت اس کے پاس تھی۔