معاشرہ

افغانستان میں غربت، بیروزگاری کے درمیان شرحِ خودکشی میں اضافہ

از عمر

مغربی افغانستان کے مقامی طبی حکام کے مطابق، حالیہ مہینوں میں افغان نوجوانوں، خصوصاً لڑکیوں میں، گہرے معاشی بحران اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کے درمیان خودکشی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ [عمر/سلام ٹائمز]

ہرات -- طبی ماہرین اور مقامی میڈیا کے مطابق، گہرے معاشی بحران اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کے درمیان، حالیہ مہینوں میں افغان نوجوانوں، خصوصاً لڑکیوں میں خودکشی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

طلوع نیوز نے 19 جولائی کو خبر دی کہ گزشتہ دو ماہ کے عرصے میں، 10 صوبوں میں کوئی 27 افغانوں نے خودکشی کی، جن میں سے زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔

خبر رساں ادارے نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران صوبہ ہرات میں تقریباً 1,000 مکینوں نے خودکشی کرنے کی کوشش کی، جس میں تقریباً 20 ہلاکتیں ہوئیں۔

خودکشی کی کوشش کرنے والوں میں سے تقریباً 70 فیصد خواتین یا لڑکیاں تھیں۔

75 سالہ عبدالرؤف (درمیان میں)، جس کے بیٹے کو اس کی بہو کی موت کے بعد قید کر دیا گیا تھا، 21 جولائی کو ہرات شہر میں اپنے ایک پوتے کو اٹھائے ہوئے ہے۔ [عمر/سلام ٹائمز]

75 سالہ عبدالرؤف (درمیان میں)، جس کے بیٹے کو اس کی بہو کی موت کے بعد قید کر دیا گیا تھا، 21 جولائی کو ہرات شہر میں اپنے ایک پوتے کو اٹھائے ہوئے ہے۔ [عمر/سلام ٹائمز]

ہرات کے علاقائی ہسپتال کے چیف میڈیکل افسر ڈاکٹر محمد عارف جلالی کے مطابق خودکشی کرنے والوں میں 85 فیصد مرد اور خواتین نوجوان تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ "ہرات کے نوجوان میں خودکشی کے سب سے عام طریقے خود سوزی، پھانسی یا منشیات کا زیادہ استعمال ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ہرات کے علاقائی ہسپتال میں روزانہ اوسطاً پانچ سے سات مریض آتے ہیں، جنہوں نے اپنی جان لینے کی کوشش کی ہوتی ہے۔

جلالی نے کہا کہ ان میں سے اکثر نے زہریلے یا کیمیائی مادے کا استعمال کیا ہوتا ہے اور "ہمارے ڈاکٹروں انہیں بچاتے ہیں"، انہوں نے زور دیا کہ عام طور پر ایسے مریض یا تو طالب علم ہوتے ہیں یا گھریلو خواتین۔

ملک کی صورتحال کے درمیان ناامیدی کے ایک مروجہ احساس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، انہوں نے مزید کہا کہ سابق سرکاری ملازمین اور محنت کش جو شدید مایوسی اور اضطراب کا شکار ہیں خودکشی کی کوشش کرنے والوں میں شامل ہیں۔

بڑھتی ہوئی بھوک اور غربت

دو بچوں کی ماں 23 سالہ زلیخا نے 16 جولائی کو ہرات شہر میں مبینہ طور پر پھانسی لے لی۔ خاندان نام کا آخری حصہ استعمال نہیں کرتا۔

اس کے خاوند جو ایک مزدور ہے، کو کئی مہینوں سے کام نہیں ملا تھا، اور خاندان کو شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ زیادہ تر راتیں تینوں بچے بغیر کھانا کھائے سو جاتے تھے۔

اس کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ نوجوان خاتون غربت، بے روزگاری اور بے بسی کے احساس کو مزید برداشت نہیں کر سکتی تھی اور اس لیے اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

زلیخا کے سسر، 75 سالہ عبدالرؤف نے کہا، "میرے بیٹے کو میری بہو کی خودکشی کے بعد سزائے قید دے دی گئی تھی۔"

اگرچہ اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ زلیخا نے خود اپنی جان لی تھی، پولیس اس کی موت کے سلسلے میں اس کے شوہر سے تفتیش کر رہی ہے۔

رؤف نے کہا، "ہمارے گھر میں کوئی کمانے والا نہیں ہے۔ زندگی بہت مشکل ہوتی جا رہی ہے، اور ہمارے پاس زندہ رہنے کے لیے کھانے کو کچھ نہیں ہے۔"

انہوں نے کہا، "میرا بیٹا مزدور ہے اور پچھلے کئی مہینوں سے نوکری نہیں ڈھونڈ سکا تھا۔ ان کے پاس رات کے کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ میری بہو غربت کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار تھی۔"

رؤف نے کہا کہ غربت نے ان کی اپنی زندگی کو بھی قابلِ رحم بنا دیا ہے۔

زلیخا کی نند، 32 سالہ صالحہ نے کہا، "جب میرے بھائی کی نوکری چلی گئی، تو اس کے گھرانے کے لیے ناگزیر مشکلات میں اضافہ ہونے لگا۔"

صالحہ نے زلیخا کی موت کے بعد کے ہفتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، "دوسروں کے گھروں میں کام کا پوچھنے جانے کے باوجود میری بھابھی کو نوکری نہ مل سکی۔ ان کے مسائل روز بروز خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔"

انہوں نے مزید کہا، "میرا بھائی مزدور ہے اور کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ اسے ماہانہ کرائے کی مد میں 3,000 افغانی (33 امریکی ڈالر) ادا کرنے پڑتے ہیں۔ وہ اتنی کمائی نہیں کر سکتا تھا کہ وہ کرایہ ادا کر سکے اور اپنے خاندان کے لیے کھانا خرید سکے۔"

صالحہ نے بتایا کہ مالک مکان کرایہ مانگنے آتا تھا، جس سے اس کا بھائی اور بھابی بہت دباؤ میں آ گئے تھے۔

اس کی ساس، 56 سالہ خدیجہ نے کہا کہ زلیخا ہمیشہ روتی رہتی اور اداس رہتی تھی کیونکہ اس کے بچے بھوکے ہوتے تھے۔

انہوں نے کہا، "میرے پوتے رات بھر بھوک سے روتے رہتے۔ انہیں تب ہی کچھ کھانے کو مل پاتا تھا جب ان کے پڑوسی کچھ عطیہ کر دیتے۔"

بہو کی موت اور بیٹے کی قید کے بعد اس جوڑے کے بچوں کی دیکھ بھال کرنا اس کی ذمہ داری بن گیا ہے۔

'بہت سے لوگ نااُمید ہو چکے ہیں'

گزشتہ ایک سال کے دوران ہزاروں افغان اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں، اور سکولوں کی بندش نے لاکھوں افغان لڑکیوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے.

امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بہت سے افغانوں کے لیے کچھ کیے بغیر گھر پر رہنے کا نفسیاتی دباؤ بہت زیادہ رہا ہے۔

ہرات کے علاقائی ہسپتال کے مطابق، تقریباً 80,000 مریض ایک سال سے بھی کم عرصے میں ہسپتال کے دماغی صحت کے شعبے میں علاج کے لیے گئے ہیں۔

اس تعداد میں 40 فیصد طلباء و طالبات اور سابق سرکاری ملازمین تھے۔

ہرات کے امدادی کارکن حسن حکیمی نے کہا کہ موجودہ مشکل صورتحال نے بہت سے نوجوان افغانوں کو مایوسی کا شکار بنا دیا ہے، کیونکہ ایک غیر یقینی مستقبل ان کے سامنے ہے۔

انہوں نے کہا، "بہت سے نوجوان جنہوں نے بڑی بیتابی سے اپنی سکول کی تعلیم مکمل کی تھی، اب بے روزگار ہیں۔ اس سے ان کا ذہنی توازن متاثر ہوا ہے کیونکہ وہ خود کو بے بس اور مایوس محسوس کرتے ہیں۔"

حکیمی نے کہا، "افغانوں، خصوصاً نوجوان خواتین نے امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے۔ بہت سے پڑھے لکھے افغان جو بے روزگاری اور پریشانی کا شکار ہیں ایسی صورتحال کو برداشت نہیں کر سکتے اور ان میں سے کچھ خودکشی کر لیتے ہیں۔"

حکیمی نے جاری پابندیوں اور عدم استحکام کی وجہ سے نوجوانوں میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان ایک دوراہے پر ہے۔

ہرات شہر کے امدادی کارکن سید اشرف سادات نے کہا کہ نوجوان افغانوں کے لیے ملازمت کا ماحول مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، جو بے روزگاروں کو ان کے گھروں میں قید کر رہا ہے۔

سادات نے کہا کہ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری اور عدم استحکام کے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں، انہوں نے زور دیا کہ اگر صورتحال پر فوری توجہ نہ دی گئی تو مزید نوجوان ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں گے.

انہوں نے خبردار کیا کہ انتہا پسند اور غیر تعلیم یافتہ حریف معاشرے میں ان کا خلاء پُر کریں گے۔

انہوں نے کہا، "میں نے حالیہ مہینوں میں بہت سی خواتین اور مردوں کو سرکاری ملازمت سے برطرف ہوتے دیکھا ہے، اور وہ سب اب بے روزگار ہیں۔"

"ان نوجوان افغانوں کے لیے کوئی امید باقی نہیں بچی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500