حقوقِ نسواں

ایرانی محافظوں کا آئی اے ای اے کی خواتین انسپکٹرز کو کپڑے اتارنے کا حکم

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ستمبر میں مشق کے دوران ایرانی حفاظتی اہلکار ترتیب میں کھڑے ہیں۔ (ایرانی وزارتِ دفاع)

ستمبر میں مشق کے دوران ایرانی حفاظتی اہلکار ترتیب میں کھڑے ہیں۔ (ایرانی وزارتِ دفاع)

ویانا، آسٹریا -- ایک خبر کہ ایرانی محافظوں نے ایجنسی کے خواتین پر مشتمل عملے کو ہراساں کیا ہے، کی اشاعت کے بعد اقوام متحدہ کے جوہری واچ ڈاگ نے بدھ (15 ستمبر) کو ایران میں اپنے معائنہ کاروں کے ساتھ پیش آنے والے "ناقابلِ قبول" واقعات کی مذمت کی ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل نے منگل کے روز خبر دی ہے کہ ایران کی مرکزی جوہری تنصیب، ناتانز کے پہرے داروں نے جون کے اوائل سے کئی واقعات میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی خواتین معائنہ کاروں کو جسمانی طور پر ہراساں کیا۔

سفارتکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے کہا کہ ان واقعات میں مبینہ طور پر چھیڑ چھاڑ کرنے اور لباس اتارنے کے احکامات دینا شامل ہیں۔

سفارتکاروں میں سے ایک نے بتایا کہ ہراساں کرنے کے کم از کم چار الگ الگ واقعات پیش آئے ہیں۔ ایک اور سفارتکار نے بتایا کہ واقعات کی تعداد پانچ سے سات ہے۔

22 جنوری 2011 کی اس فائل فوٹو میں، ایران کے اُس وقت کے چیف جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی (سامنے بائیں)، اپنے نائب علی باقری کے ہمراہ استنبول میں مذاکرات کے لیے پہنچے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے محافظ باقری کو ایران کا نیا جوہری مذاکرات کار نامزد کیا گیا ہے۔ (صالح ذکی فاضلیوغلو/پول/اے ایف پی)

22 جنوری 2011 کی اس فائل فوٹو میں، ایران کے اُس وقت کے چیف جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی (سامنے بائیں)، اپنے نائب علی باقری کے ہمراہ استنبول میں مذاکرات کے لیے پہنچے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے محافظ باقری کو ایران کا نیا جوہری مذاکرات کار نامزد کیا گیا ہے۔ (صالح ذکی فاضلیوغلو/پول/اے ایف پی)

اس ہفتے آئی اے ای اے کے رکن ممالک کے بورڈ اجلاس سے قبل امریکہ نے ان واقعات کی مذمت کی۔

امریکی ایلچی لوئیس ایل بونو نے کہا، "آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو ہراساں کرنا بالکل ناقابلِ قبول ہے اور اس طرح کے طرز عمل کو دوہرانا سنگین تشویش کا باعث ہو گا۔"

"آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی حفاظت اور بھلائی اس بورڈ کی اعلیٰ ترجیحات میں سے ایک ہونا لازمی ہے۔"

رپورٹ پر تبصرہ کرنے کے لیے پوچھے جانے پر، آئی اے ای اے نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں "ایک ایرانی تنصیب میں ایجنسی کی معائنہ کاروں کی حفاظتی پڑتالوں سے متعلق کچھ واقعات پیش آئے تھے"۔

اس نے مزید کہا، "ایجنسی نے فوری طور پر اور سختی سے یہ مسئلہ ایران کے ساتھ اٹھایا تاکہ بالکل واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بیان کیا جا ئے کہ ایجنسی کے عملے کے ساتھ حفاظت سے متعلق ایسے واقعات ناقابلِ قبول ہیں اور دوبارہ قطعاً نہیں ہونے چاہئیں۔"

بیان میں کہا گیا کہ آئی اے ای اے اور ایران کے مابین اس معاملے پر پیغامات کے تبادلے کے بعد مزید کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

اس سے پہلے بھی ایران کو جوہری معائنہ کاروں کو ہراساں کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اکتوبر 2019 میں، اس نے آئی اے ای اے کی ایک خاتون انسپکٹر کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا تھا جب ناتانز افزودگی پلانٹ کے داخلی دروازے پر اس کی وجہ سے مبینہ طور پر سیکورٹی پڑتال فعال ہو گئی تھی -- جو دھماکہ خیز مواد کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

اسے عارضی طور پر ایران سے جانے سے روک لیا گیا تھا، آئی اے ای اے نے اس اقدام کو "ناقابلِ قبول" قرار دیتے ہوئے کہا کہ "ایسی کوئی نشاندہی نہیں ہوئی جو اس الزام کی تصدیق کرے" کہ وہ دھماکہ خیز مواد لے کر جا رہی تھی۔

ایک الگ واقعے میں، تہران نے اس سال اپنی جوہری سرگرمیاں بڑھانے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ آئی اے ای اے کی رسائی محدود کر دی ہے۔

سوموار کے روز، آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے چار ایسے مقامات پر تہران کی خفیہ جوہری سرگرمیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جہاں یورینیم پایا گیا تھا۔

چیف جوہری مذاکرات کار کی تبدیلی

مشترکہ جامع عملی منصوبہ (جے سی پی او اے) کے نام سے مشہور، 2015 کے جوہری معاہدے کی تجدید کے لیے، امریکی شمولیت کے ساتھ مذاکرات فی الحال تعطل کا شکار ہیں۔

ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے بدھ کو خبر دی تھی کہ ملک کے چیف جوہری مذاکرات کار کو برطرف کر دیا گیا ہے اور انہیں مغرب کو رعایات کے مخالف کے ساتھ بطور نائب وزیرِ خارجہ لگا دیا گیا ہے۔

ریاستی ذرائع ابلاغ نے کہا کہ عباس اراغچی 2015 کے معاہدے کے کلیدی مذاکرات کاروں میں سے ایک تھے، لیکن مذاکرات میں ان کا کردار اب وزارت کے مشیر تک محدود ہو گا۔

نائب وزیر کے عہدے پر ایران کے نئے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی کے سرپرست علی باقری براجمان ہوں گے۔ جب رئیسی عدلیہ کے سربراہ تھے تب باقری نے بین الاقوامی امور میں ان کے نائب کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔

باقری نے سابق صدر حسن روحانی کو ایران کی جوہری سرگرمیوں پر سخت پابندیوں سے اتفاق کرنے اور "غیر ملکیوں" کو ایرانی جوہری پلانٹوں اور "حساس دفاعی تنصیبات" تک رسائی دینے کی رضامندی دینے پر بارہا سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

تجزیہ کار مہدی ذاکریان نے کہا کہ یہ تقرری ایران کی جوہری پالیسی کو مضبوطی کے ساتھ رئیسی کے انتہائی قدامت پسندوں کے ہاتھوں میں رکھتی ہے۔

ذاکریان نے کہا، "رئیسی انتظامیہ میں، مذاکرات کی میز پر کلیدی شخصیات اب ایرانی جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی اور علی باقری ہیں۔"

امریکی وزیرِ خارجہ انتونی بلنکن نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ ایک ایسے معاہدے کے لیے وقت نکلتا جا رہا ہے جو لازمی طور پر ایران کی جانب سے انتقامی طور پر اپنے ہی کئی وعدوں سے مکرنے سے بھی نمٹے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500