سلامتی

القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجو طالبان کی صفوں میں دیکھے گئے ہیں

محمد قاسم

15 جولائی کو لی جانے والی ایک تصویر میں، افغان ملیشیاء کے جنگجو، صوبہ بلخ کے چار کنت ضلع میں ایک چوکی پر، طالبان کےعسکریت پسندوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ [فرشاد عیسیان/ اے ایف پی]

15 جولائی کو لی جانے والی ایک تصویر میں، افغان ملیشیاء کے جنگجو، صوبہ بلخ کے چار کنت ضلع میں ایک چوکی پر، طالبان کےعسکریت پسندوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ [فرشاد عیسیان/ اے ایف پی]

قندوز -- افغان عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کے شمال مشرقی صوبوں میں، غیر ملکی جنگجوؤں کی ایک قابلِ قدر تعداد، طالبان کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہے۔

قندوز صوبہ کی 217 ویں پامیر آرمی کور کے ترجمان میجر عبدل ہادی نظاری کے مطابق، القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجو ابھی بھی طالبان میں ایک اہم موجودگی رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغان فورسز اور طالبان کے درمیان حال ہی میں بدخشاں، بغلان، تخار اور قندوز صوبوں میں ہونے والی لڑائی میں القاعدہ کے عناصر کو دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان میں سے بہت سے ہلاک اور زخمی ہو گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس بڑھتے ہوئے تنازعہ میں حصہ لینے والے غیر ملکی جنگجوؤں میں چیچن، ازبک، عرب، تاجک اور پاکستانی جنگجو شامل ہیں۔

صوبہ قندوز کے امام صاحب ضلع کے مرکز میں 29 جون کو ہونے والی لڑائی کے دوران، ایک تاجک جنگجو مارا گیا تھا اور اس کی لاش کو ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ "19 جون کو صوبہ بغلان کے خنجن اور دوشی اضلاع میں صفائی آپریشن کے دوران، سیکیورٹی فورسز نے دو پاکستانی شہریوں کو گرفتار کیا اور ایک اور غیر ملکی عسکریت پسند کو ہلاک کیا۔"

نظری نے کہا کہ پچھلے پانچ سالوں میں، غیر ملکی جنگجو مختلف اضلاع میں طالبان دھڑوں کی سربراہی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان میں بدخشاں میں یاوان، راگستان، کوہستان، جرم اور ناسی اضلاع شامل ہیں؛ قندوز کے اضلاع امام صاحب، چاہ بہار اور قلعِ ذال اور بغلان میں دندِ غوری اور شہاب الدین اضلاع شامل ہیں۔

ذری نے کہا کہ "ایک چینی ایغور، فرقان قزاق، ضلع جرم کی وادی خوستک کا مشہور ترین کمانڈر ہے"۔ انہوں نے کہا کہ وہ 300 غیر افغان جنگجووں کے ایک گروہ کی سربراہی کرتا ہے۔

طالبان کے القاعدہ سے تعلقات

طالبان کے القاعدہ سے کئی سالوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے باہمی تعاون کو مزید مضبوط کیا ہے۔ یہ بات افغانستان کی وزارتِ دفاع کے ترجمان روح اللہ احمد زئی نے سلام ٹائمز کو بتائی۔

انہوں نے کہا کہ افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) نے شمالی اور جنوب مغربی صوبوں میں میدانِ جنگ سے ایسے ثبوت اکٹھے کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ القاعدہ کے عناصر افغان طالبان کے عسکریت پسندوں کی راہنمائی اور تربیت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پکتیا صوبہ میں 6 جون کو اے این ڈی ایس ایف کی طرف سے کیے جانے والے فضائی حملے میں، درجنوں غیر ملکی جنگجو ہلاک ہو گئے تھے جس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ان جنگجوؤں نے طالبان کے ساتھ مل کر ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔

قندوز شہر کے فوجی تجزیہ کار عبد الاحد معراج زادہ نے بتایا کہ القاعدہ کے ساتھ طالبان کے تعلقات نے، افغانستان میں شدت پسندی کی دیگر سرگرمیوں میں اضافہ کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے، کسی گروپ نے کابل اور دوسرے صوبوں میں حالیہ حملوں اور دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ لیکن حملوں کی پیچیدگی "اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ طالبان اور القاعدہ کے ابھی بھی بہت قریبی تعلقات ہیں

بدخشاں کے صوبے کی رہائشی نسرین خالق یار نے بتایا کہ جھوٹے وعدے کرنے سے، عوام کا طالبان پر اعتماد پہلے سے کہیں زیادہ ختم ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے بار بار طالبان کو یہ کہتے سنا ہے کہ انہوں نے القاعدہ سے تعلقات منقطع کردیئے ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی بجائے دونوں انتہا پسند گروپوں نے اپنے تعلقات کو بڑھایا اور مضبوط کیا ہے۔

طالبان کا "امن کا کوئی منصوبہ" نہیں ہے

افغان حکام کا کہنا ہے کہ غیر ملکی جنگجو طالبان کے ساتھ مل کر لڑتے ہیں اور انہیں عسکری تربیت، بم اور خودکشی کی جیکٹیں فراہم کرتے ہیں۔

قومی نظامت برائے سلامتی کے قندوز دفتر کے ترجمان نور الہدا ملوکی نے بتایا کہ اگرچہ غیر ملکی جنگجوؤں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے مگر خفیہ اطلاعات کے مطابق،صوبہ قندوز میں 120 کے قریب جنگجو سرگرم عمل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان جگجوؤں میں سے اکثریت چیچنیا، تاجکستان اور ازبکستان سے تعلق رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ جنگجو عمومی طور پر امام صاحب اور دشتِ آرچی اضلاع میں کام کرتے ہیں جو کہ تاجکستان کی سرحد کے ساتھ ہیں۔ وہ طالبان کو عملی امداد بھی فراہم کرتے ہیں۔

قندوز سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکن میرویس امیری نے کہا کہ کچھ اضلاع پر قبضہ کرنے سے، طالبان مقامی شہ سرخیوں کا حصہ بننا چاہتے ہیں تاکہ وہ مذاکرت کی میز پر زیادہ طاقت حاصل کر سکیں۔

امیری نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ طالبان کے پاس نہ تو ایک جامع امن معاہدے کا منصوبہ ہے اور نہ ہی اس اسلامی نظام کی تعریف جسے وہ قائم کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ان کا واحد مقصد بے گناہ شہریوں کو ڈرانا اور ان پر تشدد کرنا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500