حقوقِ انسانی

نئے زیر قبضہ افغان علاقے میں طالبان دوبارہ جبر کرنے لگے

اےایف پی

3 جون کو لی گئی اس تصویر میں ضلع اندر، صوبہ غزنی کے ایک مقامی بازار میں طالبان جنگجو ایک سڑک کنارے اپنی موٹرسائیکلوں کے ساتھ کھڑے دکھائے گئے ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

3 جون کو لی گئی اس تصویر میں ضلع اندر، صوبہ غزنی کے ایک مقامی بازار میں طالبان جنگجو ایک سڑک کنارے اپنی موٹرسائیکلوں کے ساتھ کھڑے دکھائے گئے ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

کندوز – افغانستان کے جنوب میں ایک دورافتادہ ضلع پر طالبان کے قبضہ کے کئی روز بعد، انہوں نے مقامی امام کو ایک خط کی صورت میں اپنا پہلا حکم جاری کیا۔

ضلع کلافغان کے ایک 25 سالہ باشندے، صفت اللہ نے کہا، "اس میں کہا گیا کہ خواتین کسی مرد ساتھی کے بغیر بازار نہیں جا سکتیں، اور آدمی اپنی داڑھی نہ منڈوائیں۔"

اس نے مزید کہا کہ شورشیوں نے تمباکو نوشی پر بھی پابندی لگا دی ہے اور تنبیہ کی ہے کہ ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والوں سے "سنجیدگی سے نمٹا جائے گا"۔

غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے دوران طالبان – اضلاع پر قبضہ کرتے، کلیدی سرحدی پھاٹکوں کو مسدود کرتے اور صوبائی صدر ہائے مقام کو گھیرے میں لیتے ہوئے ملک بھر میں پیش رفت کر رہے ہیں ۔

وہ چند علاقوں میں اسلامی قوانین کی اس سخت تشریح کو دوبارہ متعارف کرا رہے ہیں جو 11 ستمبر کے بعد امریکہ کی زیرِ قیادت حملے کے بعد سے ان کے لیے باعثِ بدنامی بنی ہوئی تھی۔

گزشتہ ماہ انہوں نے دریائے پنج پر امریکہ کی مالی مدد سے بننے والے ایک پل کے ذریعے ملک کو تاجکستان سے ملانے والی ایک شمالی کسٹمز چوکی ، شیر خان بندر پر قبضہ کر لیا۔

ساجدہ، جو اس وقت ایک مقامی کارخانے میں کام کرتی تھی، نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "شیر خان بندر پر قبضہ کے بعد، طالبان نے خواتین کو اپنے گھروں سے قدم باہر نہ نکالنے کا حکم دیا۔"

اس نے فون پر اے ایف پی کو بتایا، "متعدد خواتین اور نوجوان لڑکیاں کشیدہ کاری، درزی اور جوتے بنانے کا کام کر رہی تھیں۔۔۔ اب طالبان کے حکم نے ہمیں خوفزدہ کر دیا ہے۔"

طالبان نے 1996 سے 2001 تک قرآن کی ایک تشریح کے مطابق افغانستان پر حکومت کی جس میں صدیوں سے خال ہی کوئی تبدیلی آئی ہے۔

خواتین کو تب تک گھروں میں رہنے کا حکم تھا جب تک کہ کوئی مرد رشتہ دار ان کے ہمراہ نہ ہو، لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی تھی، اور بدکاری جیسے جرائم میں تقصیروار پائے جانے پر رجم کیا جاتا تھا۔

مردوں کے پاس نسبتاً زیادہ آزادی تھی، تاہم انہیں داڑھی نہ منڈوانے کا حکم تھا، نماز ادا نہ کرنے پر انہیں پیٹا جاتا تھا، اور انہیں صرف روایتی لباس زیبِ تن کرنے کو کہا جاتا تھا۔

ملک کے چند دیہی علاقے طالبان کی نگرانی کے بغیر بھی ایسے ہی ضوابط پر کاربند تھے – تاہم شورشیوں نے زیادہ جدت پسند مراکز میں بھی ان فرامین کو نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔

’طالبان سے اپنی بیٹیوں کی شادیاں کریں‘

رواں ہفتے مبینہ طور پر طالبان کی جانب سے آنے والا ایک بیان سوشل میڈیا پر زیرِ گردش رہا، جس میں دیہاتیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیٹیوں اور بیواؤں کی شادیاں تحریک کے پیادہ سپاہیوں سے کریں۔

طالبان کے ثقافتی کمیشن کے نام سے جاری اس خط میں کہا گیا، "قبضہ شدہ علاقوں کے تمام امام اور ملّا طالبان جنگجوؤں کے عقد میں لائے جانے کے لیے طالبان کو 15 برس سے زائد عمر کی لڑکیوں اور 45 برس سے کم عمر کی بیواؤں کی فہرست فراہم کریں۔"

اس سے طالبان کے پہلے دورِ اقتدار کے دوران وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی جانب سے جاری کیے گئے فتٰویٰ کی تلخ یادیں تازہ ہو گئیں۔

تاجک سرحد پر ضلع یاوان میں طالبان نے عملداری حاصل کرنے کے بعد مقامی باشندوں کو ایک مقامی مسجد میں جمع کیا۔

32 سالہ نذیر محمّد نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "ان کے کمانڈر نے ہمیں بتایا کہ کسی کو رات میں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں۔"

انہوں نے افغان پرچم کے رنگوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "کوئی شخص – بالخصوص نوجوان – سرخ اور سبز لباس نہیں پہن سکتا۔"

یہ حکم یہیں ختم نہیں ہوا۔

محمد نے کہا، "سب کو پگڑی پہننا ہو گی، اور کوئی داڑھی نہیں منڈوا سکتا."

"چھٹی جماعت سے آگے سکول جانے والی لڑکیوں کو ان کی جماعتوں سے روک دیا گیا۔"

طالبان نے زور دیا کہ وہ – بطورِ خاص خواتین کے – انسانی حقوق کا تحفظ کریں گے، لیکن صرف "اسلامی اقدار" کے مطابق، جن کی تشریح مسلم دنیا میں مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے۔

تاجک سرحد پر ساجدہ کے لیے طالبان کی چند روز ہی کی حکمرانی کافی تھی – اور وہ فرار ہو کر جنوب میں کندوز کے قریبی شہر چلی گئی۔

اس نے کہا، "ہم طالبان کے تحت علاقوں میں کبھی کام نہیں کر سکیں گے۔ لہٰذا ہم چلے گئے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500