پشاور -- حکام کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ (کے پی) میں پولیس نے اس سال ابھی تک 10,000 سے زیادہ مبینہ منشیات فروشوں کو گرفتار کیا ہے جو کہ پاکستان بھر میں غیر قانونی منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جاری کوششوں کا حصہ ہے۔
کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) ثناء اللہ عباسی نے 8 جولائی کو کہا کہ "ہم نے اس سال کے دوران خیبر پختونخواہ سے 10,741 منشیات فروشوں کو گرفتار کیا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ اس سال کے پی سے پکڑی جانے والی غیر قانونی منشیات میں 423 کلوگرام ہیروئن، 8,104 کلوگرام حشیش، 64 کلوگرام کرسٹل متھ یا "آئس" اور 640 کلوگرام افیم شامل ہے۔
عباسی نے کہا کہ "علاوہ ازیں ہم نے صوبوں کے مختلف حصوں میں 104 کنال زمین پر کاشت کی گئی پوست کی فصل کو بھی تباہ کیا ہے"۔
کے پی پولیس نے اندازہ لگایا ہے کہ تباہ کی جانے والی فصلوں سے بین الاقوامی منڈی میں تقریبا 41 ملین ڈالر (6.8 بلین روپے) کی رقم حاصل ہوتی۔ اس سرمایے سے ممکنہ طور پر انتہاپسند گروہوں کو اپنی متشدد سرگرمیوں کے لیے سرمایہ ملتا"۔
عباسی نے کہا کہ تمام ڈسٹرکٹس، جن میں نئی انضمام شدہ ڈسٹرکٹس بھی شامل ہیں، کی پولیس نے ان مہمات میں حصہ لیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ منشیات کے اسمگلروں کے ساتھ اس وقت بہت سے مقابلے بھی ہوئے جب انہوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا اور پولیس پر حملہ آور ہوئے۔
سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) آپریشنز پشاور منصور امان نے اس سال ابھی تک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "پشاور میں، پولیس نے 721 منشیات فروشوں کو گرفتار کیا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے سابقہ قبائلی ڈسٹرکٹس سے ملک کے دوسرے علاقوں کو جانے والے راستوں پر نگرانی کی چوکیاں قائم کی ہیں تاکہ منشیات کے اسمگلروں کو پکڑا جا سکے۔
اس کے ساتھ ہی، وہ ان جگہوں پر چھاپے مار رہے ہیں جنہیں منشیات فروش تقسیم کے مقامات کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
دیہی پشاور کے سپریٹنڈنٹ آف پولیس وقار احمد نے کہا کہ "چھاپے مارنے اور منشیات کے اسمگلروں کو پکڑنے کے علاوہ، پشاور اور باقی کے ملک میں پولیس عوام میں اور خصوصی طور پر نوجوانوں میں، ہیروئن، آئس، حشیش اور دیگر منشیات کے استعمال کے بارے میں آگاہی بھی پیدا کر رہی ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس افسران کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں، ہوٹلوں اور عوامی جگہوں کے قرب و جوار میں، منشیات فروشوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر مردان زاہد اللہ نے 9 جولائی کو کہا کہ مردان ڈسٹرکٹ میں پولیس نے حالیہ مہینوں میں بھرپور آپریشن کیے ہیں اور اس کے ساتھ ہی عوام میں آگاہی کی مہمات بھی انجام دی ہیں۔
جان نے کہا کہ "یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلباء اور اساتذہ کے ساتھ سیمینار اور واکس کا اہتمام کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی والدین اور بچوں کو منشیات کے استعمال کے نقصانات کے بارے میں آگاہ بھی کیا گیا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ پولیس منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ، مستقبل قریب میں ان سرگرمیوں کو جاری رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ "مل جل کر ہم اپنے معاشرے کو منشیات سے پاک کر سکتے ہیں"۔
غیر قانونی منشیات کا خاتمہ
کے پی میں یہ کوششیں اس وقت کی جا رہی ہیں جب پاکستان بھر میں حکام غیر قانونی منشیات کی لعنت کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ملک بھر میں جون کے وسط میں ہونے والی مختلف مہمات میں، انسدادِ منشیات فورس (اے این ایف) نے 2.681 کلوگرام غیر قانونی منشیات بازیات کیں جن کی مالیت 57 ملین ڈالر (9.5 بلین روپے) تھی۔ یہ بات ایک ترجمان نے 19 جون کو راولپنڈی میں منشیات کے خلاف آپریشنز کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بتائی۔
ترجمان نے کہا کہ بتیس ملزمان جن میں پانچ خواتین بھی شامل تھیں کو ملک بھر میں، جس میں بلوچستان، پنجاب، کے پی اور سندھ شامل ہیں، جون کے وسط میں کی جانے والی 31 مہمات کے دوران گرفتار کیا گیا۔
ان مہمات میں پکڑی جانے والی غیر قانونی منشیات میں 2,357 کلوگرام حشیش، 296 کلوگرام افیم، 12 کلوگرام ہیروئن اور 15 کلوگرام کرسٹل متھ شامل ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ اے این ایف کوئٹہ نے قلعہ عبداللہ ڈسٹرکٹ میں کیے جانے والے آپریشن میں 1,915 کلوگرام حشیش بازیاب کی۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ٹی وی کے سینئر صحافی عدنان طارق نے کہا کہ پولیس، اے این ایف اور ایکسائز ڈپارٹمنٹ نے اس سال ابھی تک منشیات کی بڑی مقدار پکڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "بڑے بڑے منشیات فروشوں میں سے کچھ، خصوصی طور پر وہ جو ہوسٹلوں اور تعلیمی اداروں میں منشیات فراہم کر رہے تھے کو حالیہ مہینوں میں گرفتار کیا گیا ہے"۔
طارق نے کہا کہ قبائلی اضلاع سے پشاور اور ملک کے باقی حصوں کو جانے والے فراہمی کے راستوں کو ختم کرنے کے لیے، آنے والے دنوں میں مزید مہمات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ منشیات بنانے والوں اور بڑے پیمانے پر فراہم کرنے والوں کے خلاف اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "اس لعنت کے خاتمے کے لیے جس نے ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہے، مزید پرعزم کوششوں کی ضرورت ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی کے طالبِ علم شہریار علی نے غیر قانونی منشیات پر اس سے بھی سخت کریک ڈاون کا مطالبہ کیا۔
علی نے کہا کہ "اس لعنت کے خاتمے کے لیے حکومت، پولیس اور دیگر ایجنسیوں کو زیادہ جارحانہ مہمات اور اس کے ساتھ ساتھ آگاہی کی مہمات انجام دینے کی ضرورت ہے"۔
علی نے مزید کہا کہ حکام کو ان لوگوں کو سزا دینے کی، جو نوجوانوں اور دیگر پاکستانی شہریوں، خصوصی طور پر وہ جو تعلیمی اداروں میں ہیں، کو منشیات فراہم کرتے ہیں اور فراہمی کے راستوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔