جرم و انصاف

کے پی پولیس نے قبائلی علاقہ جات میں خواتین کے لیے پہلا رپورٹنگ روم تشکیل دے دیا

جاوید خان

یکم مئی کو لی گئی اس تصویر میں کرم میں خواتین کے لیے پولیس رپورٹنگ روم دیکھا جا سکتا ہے۔ [کے پی پولیس]

یکم مئی کو لی گئی اس تصویر میں کرم میں خواتین کے لیے پولیس رپورٹنگ روم دیکھا جا سکتا ہے۔ [کے پی پولیس]

پشاور – خیبر پختونخوا (کے پی) پولیس سابقہ قبائلی اضلاع میں خواتین کے لیے مخصوص رپورٹنگ رومز تشکیل دے رہی ہے، جس سے وہ حکام کے سامنے اپنی شکایات بہتر طور پر اٹھا سکیں گی۔

آگے بڑھنے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کیے جانے سےآپریش ضربِ عضب جیسی عسکری مہمات میں وہاں کام کرنے والے عسکریت پسندوں کے مارے جانے یا نکال باہر کیے جانےکے بعد قبائلی اضلاع میں ہونے والے سیکیورٹی فوائد کو مزید پختہ کرنے میں مدد ملے گی۔

سابقہ قبائلی اضاع میں ایسا پہلا رپورٹنگ روم مئی کے پہلے ہفتے میں کرم کے ضلعی صدرمقام پارہ چنار میں قائم کیا گیا۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (DPO) خرم قریش خان نے کہا، "یہ رپورٹنگ روم اس لیے قائم کیا گیا تاکہ ضلع کی خواتین کسی بھی شکایت کی صورت میں پولیس تک رسائی میں اطمینان محسوس کریں۔"

یکم مئی کو کرم میں ایک خاتون پولیس اہلکار خواتین کے پہلے پولیس رپورٹنگ روم میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ [کے پی پولیس]

یکم مئی کو کرم میں ایک خاتون پولیس اہلکار خواتین کے پہلے پولیس رپورٹنگ روم میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ [کے پی پولیس]

انہوں نے کہا کہ رپورٹنگ روم میں ہر وقت کم از کم تین خاتون اہلکار موجود ہوں گی، انہوں نے مزید کہا کہ کے پی پولیس نے اس کردار کے لیے 15 خاتون پولیس اہلکار بھرتی کی ہیں۔

خان نے کہا کہ 50 مزید خاتون پولیس اہلکاروں کی بھرتی کے بعد مرکزی کرم اور سدّا سب ڈویژنز میں دو مزید رپورٹنگ رومز قائم کیے جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا، "رپورٹنگ روم میں آنے والی ماؤں کے بچوں کے لیے وہاں کھلونے رکھے گئے ہیں۔"

سابقہ قبائلی علاقہ جات (FATA) کے نو انضمام شدہ اضلاع میں بھی خواتین کے لیے رپورٹنگ رومز کا قیام طے ہے۔

DPO اورکزئی نثار احمد نے کہا، "ہم خاتون پولیس اہلکار بھی بھرتی کرنے جا رہے ہیں تاکہ وہ خواتین سے متعلقہ متعدد امور سے نمٹنے میں مقامی پولیس کی مدد کر سکیں۔"

خان نے کہا، "آئندہ دنوں میں پولیس اور عوام کی فلاح کے لیے مزید اقدامات بھی کیے جائیں گے۔"

کے پی میں خواتین کے لیے رپورٹنگ رومز اور تھانوں میں خواتین کے ڈیسک پہلی مرتبہ جولائی 2013 میں سوات اور صوابی میں قائم کیے گئے۔

صوابی کے سابق DPO میاں سعید احمد نے کہا کہ خواتین کی تسہیل کے لیے پہلی مرتبہ خواتین کے ڈیسک تین تھانوں اور ایک مقامی ہسپتال میں قائم کیے گئے۔

سعید نے کہا، "یہ ڈیسک کسی بھی ضرورت کی صورت میں مقامی ثقافت کے مطابق آرام دہ ماحول میں مقامی خواتین کی پولیس تک رسائی کی حوصلہ افزائی کے لیے قائم کیے گئے تھے۔"

سعید کے مطابق، عام طور پر خواتین خاندانی تنازعات، وراثت کے مسائل، حراساں کیے جانے یا دستاویزات کی تصدیق کے ساتھ ساتھ پولیس سے متعلقہ دیگر امور کے لیے خواتین پولیس رپورٹنگ رومز میں آتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر میں متعدد خواتین پولیس فورس میں اعلیٰ سطحوں پر بخوبی کام کر رہی ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ انہیں سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پراپنی شجاعت، محنت اور عزم کی وجہ سےعوامی پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔

بلا ہچکچاہٹ

کرم سے ایک معلمہ، احسان، جنہوں نے اپنا پہلا نام بتانے سے انکار کر دیا، نے کہا، "کرم اور دیگر قبائلی اضلاع میں خواتین کے رپورٹنگ رومز سے مقامی خواتین کو فورس سے مدد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔"

انہوں نے کہا کہ خواتین کے رپورٹنگ رومز اور مقامی تنازعات کو حل کرنے کے لیے تنازعات کے حل کی کاؤنسلز کے پی پولیس کی فاٹا کے علاقوں تک توسیع کے بعد فاٹا کے رہائشیوں کو متعارف کرائی گئیں۔

کے پی پولیس نے گزشتہ برس سابقہ قبائلی اضلاع تک سولین پولیسنگ کو توسیع دی اورحال ہی میں اسے خاصہ دار اور لیویز کے ساتھ ضم کر دیا۔

احسان نے کہا، "قبائلی ارکان کی فلاح کے لیے پولیس تک رسائی کی سروس، پولیس کی معاونت کی لائنز اور مزید دوستانہ فورمز ہونے چاہیئں۔"

انہوں نے کہا کہ تنازعات کے حل کی کاؤنسلز اور دیگر فورمز میں خواتین کی مزید نمائندگی ہونی چاہیئے تا کہ مقامی خواتین احساسِ تشفی کے ساتھ ان تک رسائی کر سکیں۔

انہوں نے مزید کہا، "قدامت پسند قبائلی نظام میں، خواتین کو اس قدر اطمینان محسوس کرنا چاہیئے کہ وہ مردوں کے تمام فورمز تک رسائی کر سکیں، اس لیے انہیں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے اور کسی بھی بے انصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی حوصلہ افزائی کے لیے ہر جگہ نمائندگی کی ضرورت ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

G ya take h magr time lag jay ga kamyab zero hu jay ga

جواب

پنجاب میں پہلی مرتبہ راولپنڈی پولیس نے خواتین کے تھانوں میں ایک خصوصی رپورٹنگ ڈیسک قائم کیا ہے، جہاں خواجہ سراؤں کی تسہیل کے لیے ایک خواجہ سرا خاتون اور متاثرین کی معاونت کا ایک آفیسر بطورِ تسہیل کار موجود ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی سند کی حامل ریم شریف خواجہ سراؤں اور پولیس کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کریں گی۔ "تحفظ" رپورٹنگ سنٹر میں ان کے ساتھ ایک مرد اور ایک خاتون پولیس اہلکار بھی کام کریں گے۔ سٹی پولیس آفیسر (CPO) محمّد احسن یونس نے ڈان کو بتایا کہ "تحفظ" رپورٹنگ اینڈ خدمت مرکز پنجاب میں خواجہ سراؤں کے لیے اپنی طرز کا واحد مرکز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں خواجہ سراؤں کے لیے مشاورت کا ایک کمرہ ہو گا۔ جسے بھی ضلع راولپنڈی میں کوئی مسئلہ درپیش ہوگا، رپورٹنگ ڈیسک پر ان کی تسہیل کاری کی جائے گی۔ شریف انجنیئرنگ کی ایک طالبہ تھیں، لیکن جنسی امتیاز کی وجہ سے وہ انجنیئرنگ کی تعلیم مکمل نہ کر سکیں اور بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ CPO نے کہا، "ہاں، وہ اچھی طرح لکھ اور بات کر سکتی ہیں اور اپنی برادری اور پولیس کے درمیان بات چیت کے لیے ایک بہترین انتخاب ہوں گی۔" انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ وہ پولیس کی ملازمہ نہیں ہوں گی، تاہم وہ معاشرے میں مساوی برتاؤ کے لیے لڑنے میں اپنی برادری کی مدد کر سکیں گی۔ خواجہ سراؤں کو کام اور عوامی مقامات پر برے سلوک کے علاوہ بشمول سکولوں اور گھروں کے متعدد شعبہ ہائے زندگی میں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔

جواب

یہاں ہر روز ایک پٹھان کسی فضول یا زائد المعیاد کہانی کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ یہ ایک بلاواسطہ کہانی ہے اور اب زیادہ اہم نہیں، کیوں کہ یہ پہلے ہی مختلف اخباروں اور ویب سائیٹس پر شائع ہو چکی ہے۔ پینٹاگون پٹھانوں پر اس قدر سرمایہ کاری کرتے ہوئے پاکستان فارورڈ کو "پاکستان کے پٹھان فارورڈ" کیوں بنا رہی ہے؟ میڈیا کے ذریعے فرقہ واریت پھیلانے پر تمہیں شرم آنی چاہیئے۔

جواب