پشاور -- خیبرپختونخوا (کے پی) پولیس کے سربراہ دہشت گردی کے خلاف سخت کارروائی کی وراثت چھوڑتے ہوئے اپنے عہدے سے رخصت ہو گئے ہیں۔
کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی)، ناصر خان درانی نے ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے کے بعد 16 مارچ کو محکمے کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ وہ ستمبر 2013 کو آئی جی پی بنے تھے اور سنہ 2014 کے اوائل میں انہوں نے پورے صوبے میں انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی متعارف کروائی تھی۔
حکمت عملی، جو سی او پی (محکمے کی استعداد میں اضافہ، دہشت گردوں کی راہ میں حائل ہونا اور عوامی اعتماد میں اضافہ کرنا) کہلاتی ہے، کے پی میں دہشت گردی کو کم کرنے میں مدد گار ہونے کی وجہ سے سراہی جا رہی ہے۔
آپریشن ضربِ عضب (جون 2014 میں شروع ہوا) اور رد الفساد (فروری میں شروع ہوا) جیسی عسکری کارروائیوں کے سلسلے نے پورے میں ہزاروں دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے یا بھگا دیا ہے؛ تاہم، کے پی میں، درانی کی زیرِ قیادت صوبائی محکمۂ پولیس بھی اپنے تئیں دہشت گردوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کر رہا تھا۔
امن و امان کی بحالی
سنہ 2014 کے بعد سے، کے پی میں عوامی سلامتی میں ڈرامائی بہتری دیکھنے میں آئی، جس میں دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر قتلِ عام جیسے مظالم ماضی کی باتیں بن گئے۔
اس روز تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں نے 150 بچوں اور اساتذہ کو اسکول میں شہید کر دیا تھا۔
درانی نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ اندازاً تین برسوں کے دوران کے پی کی انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی مؤثر رہی ہے، کے پی پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی نے 1،200 سے زائد دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے، جن میں 121 ایسے دہشت گرد تھے جن کی گرفتاری پر انعام مقرر تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے "اس عرصے کے دوران دہشت گردی کے 786 مقدمات بھی عدالتوں کو بھجوائے۔"
پولیس نے دہشت گردوں کی معاشرے میں گھل مل جانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے بھی کام کیا۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران، انہوں نے اپنے کرایہ داروں کے کوائف پولیس کو فراہم نہ کرنے، جو کہ ایک قانونی تقاضے کی خلاف ورزی ہے، پر 22،535 مکان مالکان کے خلاف بھی مقدمات درج کیے۔
کے پی پولیس کے ایک سینیئر سپرنٹنڈنٹ شعیب اشرف نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ قومی دفاعی اداروں اور کے پی پولیس کی جانب سے مشترکہ دباؤ کے نتیجے میں، کے پی میں دہشت گردی کے واقعات کی تعداد "سنہ 2014 کے مقابلے میں سنہ 2015 میں 56 فیصد کم ہوئی۔ سنہ 2016 میں اس تعداد میں مزید 59 فیصد کمی واقع ہوئی۔"
درانی نے کے پی پولیس کو سراہا کہ انہوں نے انہیں جو بھی کہا انہوں نے وہ کیا۔
انہوں نے کہا، "میں نے دیکھا ہے کہ صوبے کے پولیس اہلکار سب سے زیادہ بہادر ہیں۔ حتیٰ کہ وہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں تھے، انہوں نے ہمیشہ بہت بہادری کا مظاہرہ کیا۔"
درانی نے کہا کہ پولیس کی شجاعت کے ساتھ ساتھ، حکمتِ عملی کئی وجوہات کی بناء پر کارگر رہی۔ "ہم نے پولیس کی استعداد میں اضافہ کیا جبکہ متعلقہ قوانین کی تجاویز پیش کرتے ہوئے دہشت گردوں کے زیرِ اثر قانونی میدان کو بھی مختصر کر دیا۔"
انہوں نے کہا کہ مزید برآں، جب شہریوں کو اعلیٰ افسران تک براہِ راست رسائی ملی اور بدعنوان افسران کو سزائیں ملیں تو عوام کا پولیس پر اعتماد قائم ہوا۔
درانی اور ان کی حکمتِ عملی کو خراجِ تحسین
کے پی کے حکام نے 16 مارچ کو پشاور میں ملک سعد شہید پولیس لائنز پر درانی کے اعزاز میں ہونے والے ایک اجتماع میں انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔
وزیرِ اعلیٰ کے پی پرویز خٹک نے تقریب میں کہا کہ درانی کی قیادت میں، "پولیس نے نہ صرف امن بحال کرنے میں مدد کی بلکہ عوام کا اعتماد بھی حاصل کیا۔"
گورنر کے پی اقبال ظفر جھگڑا نے تقریب میں کہا، "اصلاحات کا کریڈٹ [درانی]اور وزیرِ اعلیٰ خٹک کو جاتا ہے، جنہوں نے محکمے کو اختیارات دیئے۔"
درانی کو جو محکمہ ملا تھا انہوں نے اپنے پیچھے اس سے کہیں بہتر چھوڑا ہے۔
شعبۂ انسدادِ دہشت گردی کے ڈپٹی آئی جی پی مبارک زیب نے خصوصی جنگی یونٹ، فوری جوابی فورس، خواتین کمانڈوز اور دیگر کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "لگ بھگ گزشتہ تین برسوں کے دوران، بہت سی خصوصی فورسز ۔۔۔ کے پی پولیس کے اندر تشکیل دی گئیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ کے پی پولیس ماضی کی نسبت زیادہ بہتر تربیت یافتہ اور زیادہ باصلاحیت ہے۔
اشرف نے کہا کہ درانی کی دیگر کامیابیوں میں خصوصی مہارتوں کے لیے چھ پولیس درسگاہوں کا قیام جیسے کہ بارودی مواد سے نمٹنا، جرائم اور عسکریت پسندی پر معلومات جمع کرنے کے لیے عوامی معلومات نیٹ ورک قائم کرنا، پولیس سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا اور پولیس اور عوام کی شراکت داریاں قائم کرنا جیسے کہ تنازعات کے حل کی ثالثی کونسلیں اور مثالی رپورٹنگ رومز (پولیس کو اپنے مسائل بتانے کے لیے شہریوں کے لیے دوستانہ مقامات) شامل ہیں۔
عوام الناس بھی درانی کی خدمات کی قدر کرتے ہیں۔
یونیورسٹی آف پشاور کے طالب علم رضا علی نے پاکستان فارورڈ کو انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی کے بعد کے عرصے کے بارے میں بتایا، "محکمے کو غیرسیاسی بنا دیا گیا ہے۔ اس نے بدعنوانی کے الزامات میں 6،000 افسران کے خلاف کارروائی کی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ کے پی میں دہشت گردی میں بہت زیادہ کمی کرنے کے ساتھ ساتھ، پولیس نے عوام کے ساتھ باہمی میل جول کے اپنے طریقے کو بھی بہت بہتر بنایا ہے۔
آپ کے لیے پیار آئی جی پی ناصرخان درّانی صاحب
جوابتبصرے 4
ناصر درّانی صاحب! سب سے پہلے آپ کو ہماری پولیس کو کسی بھی اور صوبے کی نسبت مضبوط تر بنانے پر مبارکباد۔ جناب آپ نے صوبہ کے پی کے عوام کے لیے بہت کچھ کیا، میں آپ کی کاوشوں کی داد دیتا ہوں اور آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سلام آپ پر جناب۔ دوسرے یہ کہ آپ نے پولیس کے لیے بہت سے ادارے تشکیل دیے کہ وہ عوام سے اچھے رویّہ سے پیش آئیں۔ آپ حقیقت میں تبدیلی لے کر آئے اور امّید ہے کہ آئندہ آئی جی اختر علی صاحب بھی آپ کی طرح پولیس کے لیے کچھ بہتر کریں گے۔ مجھے پولیس سے محبت ہے اور کسی روز اس میں شامل ہوکر محکمہ سے انشاء اللہ کرپشن کے لفظ کا خاتمہ کرنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اب محکمۂ پولیس میں خاص اور قابل افسران تعینات ہوتے ہیں، جیسا کہ سی سی پی او طاہر صاحب، ایس ایس پی آپریشنز سجّاد صاحب اور ان سے پہلے عبّاس صاحب، ڈی آئی جی کوہاٹ، ڈی آئی جی مالاکنڈ، ڈی پی او صوابی شعیب اشرف، ڈی پی او مردان، حالیہ ڈی آئی جی مردان، ڈی آئی جی بنّوں اور بہت سے دیگر جنہیں میں جانتا ہوں۔ ہمیں صوبے میں ہر جگہ ایماندار اور مخلص افراد درکار ہیں جو عوام کو وقت دے سکیں اور پوری توجہ اور تعاون کے ساتھ ان کے مسائل سنیں۔ آئی جی ناصر صاحب آپ کو ایک مرتبہ پھر سلام اور میں آپ کو چیئرمین نیب دیکھنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ آپ پر رحمت ہو پاکستان پولیس زندہ باد۔ شکریہ
جوابتبصرے 4
مجھے پنجاب پولیس پسند ہے وہ بہت بارعب، طاقتور اور ذمہ دار ہے۔ میں پنجاب پولیس میں ملازمت کی خواہش رکھتا ہوں اور یہ پڑھنے کے بعد نیک خواہشات
جوابتبصرے 4
ناصر درّانی صاحب! سب سے پہلے آپ کو ہماری پولیس کو کسی بھی اور صوبے کی نسبت مضبوط تر بنانے پر مبارکباد۔ جناب آپ نے صوبہ کے پی کے عوام کے لیے بہت کچھ کیا، میں آپ کی کاوشوں کی داد دیتا ہوں اور آپ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سلام آپ پر جناب۔ دوسرے یہ کہ آپ نے پولیس کے لیے بہت سے ادارے تشکیل دیے کہ وہ عوام سے اچھے رویّہ سے پیش آئیں۔ آپ حقیقت میں تبدیلی لے کر آئے اور امّید ہے کہ آئندہ آئی جی اختر علی صاحب بھی آپ کی طرح پولیس کے لیے کچھ بہتر کریں گے۔ مجھے پولیس سے محبت ہے اور کسی روز اس میں شامل ہوکر محکمہ سے انشاء اللہ کرپشن کے لفظ کا خاتمہ کرنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اب محکمۂ پولیس میں خاص اور قابل افسران تعینات ہوتے ہیں، جیسا کہ سی سی پی او طاہر صاحب، ایس ایس پی آپریشنز سجّاد صاحب اور ان سے پہلے عبّاس صاحب، ڈی آئی جی کوہاٹ، ڈی آئی جی مالاکنڈ، ڈی پی او صوابی شعیب اشرف، ڈی پی او مردان، حالیہ ڈی آئی جی مردان، ڈی آئی جی بنّوں اور بہت سے دیگر جنہیں میں جانتا ہوں۔ ہمیں صوبے میں ہر جگہ ایماندار اور مخلص افراد درکار ہیں جو عوام کو وقت دے سکیں اور پوری توجہ اور تعاون کے ساتھ ان کے مسائل سنیں۔ آئی جی ناصر صاحب آپ کو ایک مرتبہ پھر سلام اور میں آپ کو چیئرمین نیب دیکھنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ آپ پر رحمت ہو پاکستان پولیس زندہ باد۔ شکریہ
جوابتبصرے 4