جرم و انصاف

کورونا وائرس کی پابندی نافذ کرنے کے لیے ہجوم کا مقابلہ کرنے والی خاتون پولیس افسر کی تعریف

ضیاء الرحمان

کراچی سے تعلق رکھنے والی خاتون پولیس اہلکار شرافت خان کا ایک اسکرین شاٹ، انہیں 10اپریل کو ایک متشدد ہجوم کو کنٹرول کرتے ہوئے اور حکومت کی طرف سے بڑے ہجوم کو اکٹھا ہونے پر لگائی گئی پابندی کو نافذ کرتے ہوئے دکھا رہا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی سے تعلق رکھنے والی خاتون پولیس اہلکار شرافت خان کا ایک اسکرین شاٹ، انہیں 10اپریل کو ایک متشدد ہجوم کو کنٹرول کرتے ہوئے اور حکومت کی طرف سے بڑے ہجوم کو اکٹھا ہونے پر لگائی گئی پابندی کو نافذ کرتے ہوئے دکھا رہا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- کراچی کی ایک خاتون پولیس اہلکار کی، ایک ہجوم کے سامنے کھڑے ہو کر حکومت کی طرف سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لگائی گئی پابندی کو نافذ کرنے پر تعریف کی جا رہی ہے۔

سندھ حکومت نے 26 مارچ کو مساجد پر بڑے پیمانے پر نماز پڑھانے سے منع کیا تھا جو کہ اس بیماری کو قابو کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

اہم اسلامی علماء کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت، جمعہ کی نماز میں نمازیوں کی تعداد پانچ سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔

پولیس اس پابندی کو نافذ کرنے کے لیےقانون توڑنے والے علماء کے خلاف مقدمے دائر کر کے انہیں گرفتار کر رہی ہے اور ایسی مساجد کو سیل کر رہی ہے۔

کراچی میں 10 جنوری کو خاتون پولیس اہلکار تربیتی مشق میں شریک ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی میں 10 جنوری کو خاتون پولیس اہلکار تربیتی مشق میں شریک ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

خاتون اسٹیشن ہاوس افسر (ایس ایچ او) شرافت خان، نے 10 اپریل کو ہونے والے ایک واقعہ میں، کراچی کی فرنٹئر کالونی کے علاقے میں جمعہ کی نماز کے لیے بڑے ہجوم کو اکٹھا ہونے سے روکنے کے لیے کام کیا۔

سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو میں، ہجوم کے ارکان کو خان اور اس کی ٹیم پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

پولیس کا ایک بڑا دستہ بعد میں پہنچ گیا اور انہوں نے خان کی زیرِ نگرانی صورتِ حال کو کنٹرول کر لیا۔

پولیس نے بعد میں، حملہ کرنے والوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت مقدمہ دائر کیا اور وہ اس میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔

پولیس فورس میں خواتین

خان جو کہ کراچی میں، پیرآباد پولیس اسٹیشن کی سربراہی کے لیے تعینات کردہ ایس ایچ او ہیں، کی بہادری اور شجاعت پر تعریف کی گئی ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے ہجوم کا مقابلہ کرنے اور حکومتی پابندی کو نافذ کرنے کے لیے دکھائی۔

خان کی تعیناتی حکومت کی طرف سے خواتین کی موجودگی کو بہتر بنانے کی کوششوں کے حصہ کے طور پر انہیں ملک بھر میں مکمل طور پر مردوں پر مشتمل مزید تھانوں کی سربراہی کے لیے متعین کرنے کا حصہ تھی۔

نیشنل پولیس بیورو کی طرف سے جاری کی جانے والی 2017 کی رپورٹ کے مطابق، خواتین، ملک کی پولیس فورس کا 2 فیصد سے کم حصہ ہیں۔

خواتین کے حالات پر سندھ کمیشن کی چیرپرسن نزہت شیریں نے کہا کہ ثقافتی اقدار اور روایات خواتین کو پولیس فورس میں شامل ہونے سے روکتی ہیں جس کا نتیجہ فورس میں ان کی نمائندگی کم ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اہم عہدوں جیسے کہ ایس ایچ او کے طور پر ترقی دیے جانے کے علاوہ، خواتین پولیس اہلکاروں کو ہر پولیس اسٹیشن میں تعینات کیا جانا چاہیے"۔

شیریں نے کہا کہ ایسے اقدامات سے "نہ صرف خواتین کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ پولیس فورس میں شامل ہوں بلکہ خواتین سے متعلقہ مسائل کو حل کرنے میں بھی مدد ملے گی"۔

پاکستانی حکام نے ماضی میں ایسے بہت سے اقدامات شروع کیے تھے جن کا مقصد خواتین کو پولیس فورس میں بھرتی کرنا تھا۔

گزشتہ سال، خیبر پختونخواہ (کے پی) پولیس نے اپنے بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) میں خواتین کو شامل کیا تھا، جو کہ ماضی میں کئی دیہائیوں سے ہزاروں بموں کو ناکارہ بنانے میں اہم قوت رہی ہے۔

ٹی ٹی پی کا سابقہ گڑھ

خان کی پیرآباد پولیس اسٹیشن میں تعیناتی سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاتون پولیس اہلکار شہر کے پر آشوب قرب و جوار کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔

اس اسٹیشن کے دائرہ کار میں آنے والے علاقے، ستمبر 2013 میں کراچی میں متحرک متشدد گروہوں کے خلاف شروع کی جانے والی مہم سے پہلے، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا مضبوط گڑھ تھے۔

پیرآباد پولیس اسٹیشن خود 2014 میں دو بار بم دھماکوں کا نشانہ بنا۔

مقامی سماجی کارکن محمد رسول نے کہا کہ "ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے علاقے میں، اسکولوں اور بہت سی لبرل سیاسی جماعتوں خصوصی طور پر عوامی نشینل پارٹی (اے این پی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو نشانہ بنایا تھا"۔

رسول نے کہا کہ پیرآباد کے دائرہ کار میں آنے والے ایک اسکول کو طالبان کے عسکریت پسندوں نے تین بار نشانہ بنایا۔ چھہ سال تک بند رہنے کے بعد یہ طلباء اور خصوصی طور پر لڑکیوں کو معیاری تعلیم دینے کے لیے دوبارہ کھل گیا ہے۔

رسول نے کہا کہ "طالبان کے عسکریت پسندوں کو ہلاک اور گرفتار کیے جانے کے بعد، علاقے میں امن واپس آ گیا ہے"۔

انہوں نے علاقے میں خاتون افسر کو تعینات کرنے کے حکومتی قدم کی تعریف کی۔

انہوں نے کہا کہ "خان کی تعیناتی طالبان کی شیطانی قوتوں کو، جو کہ خواتین اور بچوں کو ہلاک کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتی ہیں، ایک پیغام ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

وہ ہیروئن ہے اس کی خدمات کا اعتراف ہونا چاہیئے

جواب

جو لوگ. مسجد. سے روکتے ھین. وه. كافر. هو جکے هين. مرتد

جواب