کراچی -- اگرچہ پاکستانی حکام کورونا وائرس کی عالمی وباء سے نمٹ رہے ہیں وہ منظم جرائم اور دہشت گردی میں سرمایہ کاری کے خلاف کام کرنا بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں منظم جرائم سے لڑنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں، دانشوروں، سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ کے ماہرین کی جانب سے بنائے گئے، اسلام آباد کے مقامی ایک آزاد پلیٹ فارم، منظم جرائم کے خلاف قومی پہل کاری (این آئی او سی) کی جانب سے حالیہ رپورٹوں کے مطابق، وائرس کے پھیلاؤ سے دہشت گردی میں سرمایہ کاری، آن لائن جرم اور سٹریٹ کرائمز سے لڑ رہے پاکستانی حکام کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
10 اور 17 اپریل کی رپورٹوں میں ادارے نے مشاہدہ بیان کیا ہے کہ حکام نئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے بروقت اقدامات اٹھا رہے ہیں اور انہیں کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
این آئی او سی کے ایک اہلکار، محمد عامر رانا نے کہا جبکہ کورونا وائرس کی عالمی وباء نے ان خطرات کو پیچیدہ بنا دیا ہے، یہ نئے حل بھی سامنے لا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل کی مشکلات کو بہتر طور پر سمجھنے اور ان کے لیے تیار ہونے کے لیے پاکستان پر لازم ہے کہ بدلتے ہوئے رجحانات کی نگرانی کرنے کی خاطر ادارہ جاتی چوکسی کا اظہار کرے۔
این آئی او سی کے مطابق، وفاقی تحقیقاتی ادارے اور مالیاتی اداروں، بشمول بینکوں، نے سوشل میڈیا پر مہمات شروع کی ہیں اور دھوکہ دہی کے متعلق تنبہات بھیج رہے ہیں، جن میں عالمی وباء کے دوران اضافہ ہوتا رہا ہے۔
رانا کا کہنا تھا، "کورونا وائرس نے سائبرسپیس پر ٹریفک میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اس رجحان نے سائبرسپیس کی حساسیتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے، جہاں سائبر کریمینل مبینہ طور پر دھوکہ دہی کی کارروائیوں میں مشغول ہونے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کر رہے ہیں۔"
ایک سرکاری ادارے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، نے بھی کورونا وائرس کی معلومات پر مشتمل پیغامات کے بھیس میں ممکنہ سائبر حملوں سے متنبہ کیا ہے اور پاکستانیوں کو عوامی مقامات پر وائی فائی استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا.
دہشت گردی میں سرمایہ کاری
دریں اثناء، پاکستان انسدادِ منی لانڈرنگکئی اقدامات اٹھانا جاری رکھے ہوئے ہے۔اور عوام کو منی لانڈرنگ، دہشت گردی میں سرمایہ کاری اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی تعلیم دینے کے لیے پیرس کی ایک مقامی تنظیم، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے
ایف اے ٹی ایف، جس نے جون 2018 میں پاکستان کو اپنی گرے لسٹ میں ڈالا تھا، اس نے اپریل میں پاکستان کے لیے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی آخری تاریخ میں جون 2020 سے ستمبر 2020 کی توسیع کر دی تھی۔
1 اپریل کو ایف اے ٹی ایف کی ایک نصیحت، خصوصی طور پر جعلی خیراتی اداروں کے لیے چندہ جمع کرنے اور بھولے بھالے لوگوں کو شکار بنانے کے لیے کئی طبی دھوکوں سمیت سائبر کرائمز میں اضافے کے خطرے کے متعلق تنبیہ بھی کرتی ہے۔
کراچی میں قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے کے اعلیٰ اہلکار نے کہا کہ غالباً کالعدم تنظیمیں خیراتی اداروں کے بھیس میں کورونا وائرس کے بحران کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گی۔
گمنامی کی شرط پر اہلکار نے کہا، "مگر اب کالعدم تنظیموں اور ان کے ساتھ منسلک خیراتی اداروں کے لیےچندے جمع کرنامشکل ہو گیا ہے۔"
انہوں نے کہا، "حکام یہ یقینی بنانے کے لیے مصروفِ عمل رہے ہیں کہ رمضان کے دوران دیئے گئے خیراتی عطیات اصلی فلاحی تنظیموں کو جائیں نہ کہ عسکری گروہوں کی جیبوں میں۔"
سٹریٹ کرائمز
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار خصوصاً کراچی اور اسلام آباد میں سٹریٹ کرائمز میں اضافے کا مقابلہ کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔
این آئی او سی کے مطابق، اسلام آباد میں سٹریٹ کرائمز کے متعلق شکایات میں اضافے کے بعد، پولیس نے شہر کے تمام حصوں کا احاطہ کرنے کے لیے رات کے وقت گشت کے ایک منصوبے کا خاکہ تیار کیا ہے۔
دارالحکومت کی پولیس نے منصوبے کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لیے، سٹریٹ کرائمز کے لیے بنائے گئے ایک خصوصی شعبے، فالکن اسکواڈ کی اضافی افسران اور گاڑیوں کو تعینات کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے میں افسران نے درجنوں افراد کو گرفتار کیا ہے۔
اسی طرح کراچی میں، پولیس حکام اپنی ہیلپ لائن 15 پر سٹریٹ کرائمز کے متعلق آنے والی تمام اطلاعات پر فوری ردِعمل دے رہے ہیں۔
کراچی پولیس کے سربراہ غلام نبی میمن نے کہا کہ محکمۂ پولیس کے کئی شعبے چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، "سٹریٹ کرائم کی بیخ کنی کرنے اور حکام کو ایسے واقعات کی فوری اطلاع دینے کے لیے شہریوں کو چاہیئے کہ وہ پولیس کے ساتھ تعاون کریں۔"