اسلام آباد – حکام نے 5 اپریل کو کہا کہ پاکستان نے 20,000 زاہدین کو قرنطینہ کر دیا ہے اور بدتر ہوتی کروناوائرس وبا کے باوجود گزشتہ ماہ لاہور میں ایک اسلامی اجتماع میں شریک ہونے والے مزید دسیوں ہزاروں کی تلاش جاری ہے۔
حکام نے کہا کہ وہ 10-12 مارچ کے درمیان تبلیغی جماعت کی جانب سے منعقدہ اس تقریب کے لیے جمع ہونے والوں کو اس خدشہ کی بنا پر ٹیسٹ یا قرنطینہ کرنا چاہتے ہیں کہ اب وہ پاکستان بھر میں اور بیرونِ ملک کووڈ-19 پھیلا رہے ہیں۔
منتظمین، جنہوں نے ملک میں وائرس کے حملے کے باعث اسے منسوخ کرنے کی درخواست کو نظرانداز کر دیا، نے کہا کہ 100,000 سے زائد شرکاء نے اجتماع میں شرکت کی۔
پیر (6 اپریل) کو ڈان نے خبر دی کہ پاکستان میں کووڈ-19 کے 3,520 مصدقہ واقعات کے ساتھ 52 اموات کی اطلاع ہے۔
حکام نے خیبرپختونخوا (کے پی) میں اب تک 5,300 ایسے تبلیغیوں کو قرنطینہ کیا ہے جنہوں نے لاہور کے اجتماع میں شرکت کی۔
خطے کے ایک ترجمان اجمل وزیر نے 5 اپریل کو اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "صحت کے اہلکار کروناوائرس کے ٹیسٹ کر رہے ہیں، اور ان میں سے بعض کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔"
وزیر نے کہا کہ ملک بھر میں بڑی شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے کے پی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں تبلیغی دیگر علاقوں میں پھیل گئے۔
یہ شدید خدشات اس وقت سامنے آئے جبحکومتِ چین، روس اور ایران کی جانب سے غلط معلومات کی موثر مہمّاتپر مذمّت بڑھ رہی ہے۔
قرنطینہ، خود ساختہ تنہائی، بندشیں
حکومتی عہدیداران کا کہنا ہے کہ تقریباً 7,000 افراد کو لاہور میں قرنطینہ کیا گیا ہے، جبکہ 8,000 کے قریب تبلیغیوں کو صوبہ سندھ میں قرنطینہ کیا گیا۔
درجنوں دیگر کو صوبہ بلوچستان میں خودساختہ گوشہ نشینی پر مجبور کیا گیا ہے۔
مارچ کے آخر میں تبلیغی مساجد اور اس تحریک کے دیگر مقاماتِ عبادت کو بند کر دیا گیا یا انہیں قرنطینہ مراکز قرار دے دیا گیا۔
حکام نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ماہ کی جماعت میں جانے والے کم از کم 154 زاہدین کے کرونا وائرس ٹیسٹ مثبت آئے، جبکہ دو اموات ہوئیں۔
تاہم، محدود ٹیسٹنگ کے ہوتے ہوئے، مشاہدین کو خدشہ ہے کہ انفکشنز اور اموات کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
تبلیغی جماعت دنیا میں اعتقاد پر مبنی سب سے بڑی تحریکات میں سے ایک تصور کی جاتی ہے، جس کے بطورِ خاص جنوبی ایشیا میں دسیوں لاکھوں پیروکار ہیں، اور اسلام کے تصورات پھیلانے کے لیے مختلف ممالک میں مبلغین بھیجتی ہے۔
متعدد ممالک میں ممکنہ پھیلاؤ
منتظمین کا کہنا ہے کہ رواں برس چین، انڈونیشیا، نائجیریا اور افغانستان سمیت مختلف ممالک سے متعدد غیر ملکی شہری شریک ہوئے۔
تقریباً 1,500 غیرملکی اس وقت پاکستان میں قرنطینہ ہیں، لیکن دیگر بنا جانچ کیے گئے ملک چھوڑ چکے ہیں۔
غزہ کی وزارتِ صحت نے گزشتہ ماہ تصدیق کی کہ وہاں پر کرونا وائرس کے پہلے دو واقعات ایسے فلسطینیوں کے ہیں جنہوں نے اس اجتماع میں شرکت کی۔
قبل ازاں پاکستان کے وزیرِ سائنس فواد چودھری نے "مولویوں کے اکھڑ پنے" کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے اس امر پر برہمی کا اظہار کیا کہ تقریب منعقد ہوئی۔
انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "عوام کا کوئی بھی ایسا گروہ دوسروں کے لیے خطرہ بن جائے گا جو حکومت کے مشورے پر عمل نہ کرتے ہوئے اپنی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھے گا۔"
منتظمین کا کہنا ہے کہ حکام کی جانب سے تجویز کے بعد انہوں نے اجتماع کو مختصر کر دیا؛ تاہم، انہوں نے کہا کہ، اس وقت ایسا بارش کے موسم کی وجہ سے ہوا۔
کرونا وائرس کے دوران ہی ملائشیا اور بھارت میں تبلیغی جماعت کے ایسے اجتماعات کو دیگر ممالک میں یہ وائرس پھیلانے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔
درایں اثناء، پاکستان میں کووڈ-19 کے موجودہ واقعات میں سے ایک بڑی تعداد کوایران سے منسلککیا جا رہا ہے۔
صحت پر وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی، ڈاکٹر ظفر مرزا نے 24 مارچ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا، "پاکستان میں کووڈ-19 کے مصدقہ مریضوں میں سے اسّی فیصد ایران سے آئے، جن کے پاس صحتِ عامہ کی اس بین الاقوامی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے استعداد نہ تھی۔"