دہشتگردی

دہشت گردی میں بچ جانے والا قبائلی علاقوں کے معذوروں کی مدد کے لیے کوششوں میں شریک

محمد شکیل

گزشتہ نومبر میں، فاٹا ڈس ایبل ویلفیئر آرگنائزیشن کی طرف سے وانا میں منعقد کیے جانے والے ایک طبی کیمپ میں ڈاکٹر مریض کا معائینہ کر رہا ہے۔ [ایف ڈی ڈبلیو او]

گزشتہ نومبر میں، فاٹا ڈس ایبل ویلفیئر آرگنائزیشن کی طرف سے وانا میں منعقد کیے جانے والے ایک طبی کیمپ میں ڈاکٹر مریض کا معائینہ کر رہا ہے۔ [ایف ڈی ڈبلیو او]

پشاور -- عرفان اللہ اس جسمانی اور ذہنی درد سے آگاہ ہیں جس کا سامنا دہشت گردی کے متاثرین کو ہر روز کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ 2011 میں کرم ڈسٹرکٹ، خیبر پختونخواہ میں ہونے والے دہشت گردوں کی طرف سے کیے جانے والے بم دھماکے میں اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور ہو گیا تھا۔

2015 میں ان کی عمر 13 سال تھی اور انہیں جن مشکلات کا سامنا کرنے پڑا تھا انہوں نے انہیں فاٹا ڈس ایبل ویلفیئر آرگنائزیشن (ایف ڈی ڈبلیو او) بنانے کے لیے اکسایا جو دہشت گردی کے حملوں میں معذور ہو جانے والے قبائلی شہریوں کو جسمانی اور اخلاقی مدد فراہم کرتی ہے۔

2016 میں اپنی باضابطہ رجسٹریشن سے لے کر اب تک، اس تنظیم نے پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو امداد فراہم کی ہے تاکہ دہشت گردی کا شکار بننے والوں کو اپنی معذوریوں پر قابو پانے میں مدد فراہم کی جا سکے اور انہیں معمول کی زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکے۔

عرفان اللہ جو کہ ایف ڈی ڈبلیو او کے چیرمین ہیں، نے سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ہم نے ایف ڈی ڈبلیو او کے پرچم تلے 2015 میں اس وقت کام کرنا شروع کیا جب ہم نے فاٹا میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں زخمی ہو جانے والوں کی حالتِ زار اور پریشانی دیکھی"۔

گزشتہ نومبر میں، فاٹا ڈس ایبل ویلفیئر آرگنائزیشن کی طرف سے وانا میں منعقد کیے جانے والے ایک طبی کیمپ میں مریض علاج کروا رہے ہیں۔ [ایف ڈی ڈبلیو او]

گزشتہ نومبر میں، فاٹا ڈس ایبل ویلفیئر آرگنائزیشن کی طرف سے وانا میں منعقد کیے جانے والے ایک طبی کیمپ میں مریض علاج کروا رہے ہیں۔ [ایف ڈی ڈبلیو او]

اس تنظیم کا بنیادی مقصد متاثرین کی زیادہ منظم اور موثر طریقے سے مدد کرنا ہے۔ یہ بات عرفان اللہ نے کہی جو اب 18سال کے ہیں اور اسلامیہ کالج پشاور میں پری میڈیکل کے دوسرے سال کے طالبِ علم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میں اس وقت چوتھی جماعت کا طالبِ علم تھا جب دھماکے نے میری دونوں ٹانگوں کو اڑا دیا۔ اس وقت سے اب تک، میں ایک ایسے معاشرے سے لڑ رہا ہوں جہاں معذوری اکثر آپ کو معمول کی زندگی گزارنے اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے سے محروم رکھتی ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "کوئی بھی انسان کے جذبات اور اندرونی اضطراب کو میرے سے زیادہ بہتر طور پر نہیں جان سکتا کیونکہ اس حادثے نے نہ صرف میری زندگی کا راستہ بدل دیا بلکہ مجھے ایک مسلسل غذاب میں ڈال دیا"۔

انہوں نے کہا کہ "میری مقابلہ کرے کی صلاحیت اور مصائب جھیلنے والے اپنے ساتھیوں کے دکھ کو سانجھا کرنے کے میرے عزم نے مجھے ایک ایسی تنظیم بنانے کی ہمت دی جو قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے"۔

دور افتادہ علاقوں میں نگہداشت

عرفان اللہ نے کہا کہ "قبائلی علاقوں میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ جنوبی وزیرستان ہے جہاں شہری ابھی بھی ہمت جمع کر رہے ہیں اور معمول کی زندگیوں کی طرف واپس جانے کے لیے مسائل سے جنگ کر رہے ہیں"۔

عرفان اللہ کے مطابق، قبائلی علاقوں میں رہنے والے دہشت گردی کے متاثرین کو درپیش لاتعداد مسائل کے باعث، ایف ڈی ڈبلیو او نے حال ہی میں وانا میں مصنوعی ہاتھوں اور ٹانگوں کا ایک مرکز قائم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہم سب قبائلی علاقوں میں ایسے مراکز کھولنے کے لیے کام کر رہے ہیں"۔

ایف ڈی ڈبلیو او کے ترجمان جمیل خان نے کہا کہ "قبائلی علاقوں کے تقریبا 15،000 شہری ایسے ہیں جو مختلف وجوہات کی بنیاد پرمعذور ہیں جس میں پولیو بھی شامل ہے۔ان میں سے 2،000 ایسے ہیں جو ضم شدہ اضلاع (سابقہ فاٹا) میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں معذور ہوئے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ معذور افراد کی مدد کرنے کے علاوہ، تنظیم ایسے قبائلی ارکان کے لیے طبی کیمپ منعقد کرتی ہے جو دور دراز کے علاقوں میں رہتے ہیں اور انہیں صحتِ عامہ تک رسائی حاصل نہیں ہے"۔

خان نے کہا کہ "ایسے طبی کیمپ فراہم کرنا ہمارے ایجنڈا کا حصہ ہے جس کا مقصد پسماندہ اور ضرورت مند افراد کے مصائب کو کم کرنا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ سماجی بھلائی کے کچھ اہلکاروں کی بے حسی کے باعث، دہشت گردی کے باعث معذور ہو جانے والوں کے مصائب اور مشکلات کے بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

خان نے کہا کہ "ہماری تنظیم کی کوششوں کا ان مصائب سے کوئی مقابلہ نہیں ہے جن کا سامنادہشت گردی سے متاثر ہونے والوں کو کرنا پڑتا ہے مگر ہم مطمین ہیں کہ ہم نے انہیں اخلاقی اور جسمانی امداد فراہم کرنا شروع کر دی ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ایف ڈی ڈبلیو او نے ابھی تک، دہشت گردی سے متاثر ہونے والوں کو 186 مصنوعی ٹانگیں فراہم کی ہیں جبکہ دیگر 36 کا ناپ لے لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے تقریبا 200 وہیل چیرز تقسیم کی ہیں"۔

اکاون سالہ نصیر آفریدی جو کہ سپیر پارٹس کی دکان چلاتا ہے اور کے پی کے نئے انضمام شدہ قبائلی اضلاع میں جمرود کا رہنے والا ہے، نے کہا کہ برادری کو تنظیم کی کوششوں کی انتہائی شدید ضرورت تھی اور ہم ان کوششوں پر شکر گزار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ"کسی غیر شہری کے لیےقبائلی افراد کے مسائل اور مصائب کا احساس کرنا بہت مشکل ہو گا جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں"۔"قبائلی افراد ابھی تک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں جس نے لوگوں کو بے گھر اور فقیر کر دیا ہے جبکہ ان میں سے کچھ ساری زندگی کے معذور اور اپاہج ہو گئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "معذور افراد کی مدد اور انہیں انسانی ہمددری کی بنیاد پر مدد فراہم کرنا اور انہیں معمول کی زندگی کی طرف لوٹانے کی کوششیں اس تنظیم کی کامیابیاں ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ ایف ڈی ڈبلیو او اور اس کے کام کو "حکومت اور معاشرے دونوں کی طرف سے سراہے جانے کی ضرورت ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

AP ka ye news hamain psand aya

جواب