معاشرہ

پشاور میں انڈر 21 گیمز امن کی بحالی کو اجاگر کرتی ہیں

از جاوید خان

کیپیٹل سٹی پولیس افسر محمد علی گنڈاپور اور دیگر اعلیٰ حکام 9 مارچ کو انڈر 21 گیمز کی سیکیورٹی کا معائنہ کرنے کے لیے قیوم اسٹیڈیم کا دورہ کرتے ہوئے۔ [کے پی پولیس]

کیپیٹل سٹی پولیس افسر محمد علی گنڈاپور اور دیگر اعلیٰ حکام 9 مارچ کو انڈر 21 گیمز کی سیکیورٹی کا معائنہ کرنے کے لیے قیوم اسٹیڈیم کا دورہ کرتے ہوئے۔ [کے پی پولیس]

پشاور -- خیبرپختونخوا (کے پی) بھر سے 7،000 سے زائد کھلاڑی انڈر 21 گیمز میں حصہ لے رہے ہیں جن کا آغاز سوموار (9 مارچ) کو پشاور میں ہوا۔

تشدد اور دہشت گردی کے برسوں کے بعد ملک میں امن واپس لوٹنے پرکے پی اور پاکستان بھر میں کھیلوں کی زیادہ سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔

سنہ 2009 میں لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر ایک خونریز دہشت گرد حملےکے بعد انٹرنیشنل سپورٹس فیڈریشنز نے ملک کو کئی برسوں کے لیے بلیک لسٹ کر دیا تھا۔ سنہ 2014 میں کینیا کی ٹیم کے دورے تک دوبارہ کسی غیرملکی کرکٹ ٹیم نے پاکستان میں نہیں کھیلا تھا۔

سوموار کے روز پشاور میں قیوم سپورٹس کمپلیکس میں وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک تقریب کے دوران کھیلوں کا افتتاح کیا۔ کے پی کے گورنر شاہ فرمان، وزیرِ اعلیٰ محمود خان اور بہت سی دیگر اعلیٰ شخصیات نے بھی تقریب میں شرکت کی۔

پشاور میں انڈر 21 گیمز کا افتتاح 9 مارچ کو آتش بازی سے ہوا۔ [جاوید خان]

پشاور میں انڈر 21 گیمز کا افتتاح 9 مارچ کو آتش بازی سے ہوا۔ [جاوید خان]

کھیلوں کا افتتاح آتش بازی اور متعلقہ کھلاڑیوں کی جانب سے ایک مارچ کے ساتھ ہوا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے کھیلوں کے ایک رپورٹر، رفعت اللہ نے کہا، "انڈر 21 گیمر تین [متواتر] مراحل میں تحصیل، ضلع اور ڈویژن کی سطحات پر منعقد کی جا رہی ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت، دوسرے مرحلے (ضلعی مقابلوں) کا انعقاد ہو رہا ہے، جس میں 13 کھیلوں میں 7،000 کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔

رفعت اللہ نے کہا، "مردوں کے لیے 32 اور خواتین کے لیے 27 مختلف کھیلوں میں انڈر 21 گیمز کے تینوں مراحل میں 26،000 سے زائد کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔"

بیشتر کھیل قیوم سپورٹس کمپلیکس میں منعقد ہو رہے ہیں، جبکہ مردوں اور خواتین کے کچھ مقابلے حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں ہو رہے ہیں۔

مقابلوں کا تحفظ

حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے عمارات کے گرد پولیس تعینات کر دی گئی ہے۔

کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) محمد علی گنڈاپور نے کہا، "2،000 سے زائد پولیس اہلکاروں کو مقابلوں کے پُرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے کھیلوں کی حفاظت کے لیے تعینات کر دیا گیا ہے۔"

مقابلوں کے حفاظتی انتظامات کا معائنہ کرنے کے لیے سوموار کے روز گنڈاپور اور دیگر حکام نے قیوم سپورٹس کمپلیکس اور دیگر قریبی علاقوں کا دورہ کیا۔

اسٹیڈیم میں، کے پی حکومت کے ترجمان، اجمل وزیر نے کہا، "صوبہ اب دہشت گردی سے سیاحت اور کھیلوں کی طرف جا رہا ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں کھیلوں کی سرگرمیوں کا انعقاد ایک علامت ہے کہ صوبے میں امن واپس آ گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ کے پی اگلے سیشن میں پاکستان سپر لیگ کے میچوں کی میزبانی کر سکتا ہے۔

گزشتہ نومبر میں، پشاور نےپاکستان کے 33ویں قومی کھیلوںکی میزبانی کی تھی، جو کہ وہاں سنہ 2010 کے بعد ہونے والے پہلے مقابلے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Sir jee kpk police ko theek karo jee

جواب