پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) کی خاتون کھلاڑی، سارہ خان، پشاور میں اپنا تیراندازی کا کلب چلاتے ہوئے قدامت پسند اور مردوں کا غلبہ رکھنے والے معاشرے میں کھیلوں کو فروغ دینے کے اپنے عزم کو پورا کر رہی ہیں۔
پختونخواہ تیراندازی کلب، جسے جنوری 2017 میں پاکستان سپورٹس کوچنگ سینٹر قیوم سپورٹس کامپلکس میں قائم کیا گیا تھا، نے پہلے ہی ایسے کھلاڑی پیدا کر لیے ہیں جنہوں نے قومی سطح پر کامیابیاں حاصل کر لی ہیں۔
ان میں اسرار الحق بھی شامل ہیں جو کہ چھٹے قومی تیراندازی کے مقابلوں میں پانچویں نمبر پر رہے جو کہ جنوری 2018 میں پشاور میں منعقد ہوا تھا۔
یہ پاکستان میں اس طرز کا پہلا کلب ہے: مرد و خواتین تیر انداز دونوں ہی ایک خاتون کوچ سے تربیت حاصل کرتے ہیں۔
خاتون کھلاڑیوں کے لیے مثالی شخصیت
خان، جو پشاور کے ایگریکلچرل یونیورسٹی پبلک اسکول اینڈ کالج میں کھیلوں کی استاد ہیں، نے نومبر میں پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کھیلوں میں ایک خاتون کے طور پر نام کمانے کے لیے میرا شوق ہی وہ قوت تھا جس کا نتیجہ ایک تیراندازی کا کلب قائم کرنے کی صورت میں نکلا جو کہ اس قسم کا پہلا کلب ہے جسے ایک خاتون چلا رہی ہے"۔
خان نے کہا کہ انہوں نے "نوجوانوں کو ایک ایسے کھیل کے لیے تربیت دینے کا چیلنج قبول کیا ہے جو کے پی کے لوگوں کے لیے بالکل نیا ہے"۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم نے میرا انتخاب کیا تھا مگر میرا خاندان سماجی دباؤ کے آگے جھک گیا اور مجھے اپنا شوق پورا کرنے سے روک دیا گیا۔ تاہم، رکاوٹوں اور ناکامیوں کے باوجود میں اس وقت سے کے پی کی خواتین کے لیے ایک مثال بننے کے لیے مسلسل لڑ رہی ہوں"۔
خان نے کہا کہ قومی چیمپین شپ میں اسرار کی پانچویں پوزیشن "ایک ایسے کلب کے لیے اعزاز ہے جو اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے اور جو کھلاڑیوں کی طرف سے اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت چل رہا ہے"۔ انہوں نے کہا کہ کھلاڑی اپنا خرچہ خود اٹھاتے ہیں جس میں سامان کی خریداری بھی شامل ہے۔
انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستان کی بہتری کے لیے ان کی تنظیم جیسی تنظیموں کی مدد کرے جو "کھیلوں میں نوجوانوں کی قدرتی صلاحیتوں" کو ابھار رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تیراندازی کے سامان کی خریداری بہت سے کھلاڑیوں کو یہ کھیل اپنانے سے روکے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مقابلوں میں استعمال کیے جانے والی ایک کمان کی قیمت تقریبا 350,000 روپے (2,822 ڈالر) ہے۔
معاشرے پر اثرانداز ہونا
بیس کھلاڑی، جن کی عمریں 12 سے 45 سال کے درمیان ہیں، جن میں پانچ خواتین اور ایک معذور شخص شامل ہے، خان کے کلب میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "کلب میں خاتون کھلاڑیوں کی موجودگی ہماری خواتین کی ہمت اور عہد کی تعریف کرتی ہے"۔
ایک ریٹائرڈ سرکاری اہلکار اکبر اعظم نے کہا کہ "کھیلوں کی طرف سارہ خان کی وابستگی اور عہدِ مصمم نے مجھے متاثر کیا کہ میں ایک غیر پیشہ ورانہ کھلاڑی کے طور پر کلب میں شامل ہو جاؤں"۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کلب کا ہر ایک کھلاڑی اس کے عزم سے متاثر ہے جو کہ ایک ایسے معاشرے میں ناقابلِ یقین ہے جس پر قدامت پرستی اور سماجی حدود کا بہت زیادہ بوجھ ہے"۔
کلب کے سیکریٹری اور کے پی پولیس ڈپارٹمنٹ کی نمائںدگی کرنے والے کھلاڑی وقار احمد خلیل نے کہا کہ "کے پی کے قدامت پسند ماحول میں ایک خاتون کے طور پر کلب چلانا بذاتِ خود معاشرے کی طرف سے تعریف کے قابل ہے"۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "یہ کلب ان خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے جنہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے اور وہ اپنے آپ پر یقین رکھتی ہیں اور ان کے پاس مردوں کے غلبہ والے معاشرے میں مقابلہ کرنے اور کامیاب ہونے کی ہمت ہے"۔