معاشرہ

پاکستان کی 'زندگی' ایپ غیر قانونی منشیات کی وباء سے آگاہی میں اضافہ کرتی ہے

از جاوید خان

ڈپٹی انسپکٹر جنرل خیبرپختونخوا پولیس قاضی جمیل الرحمان اکتوبر 2018 میں پشاور میں 'آئس' (کرسٹل میتھ) اور دیگر منشیات سے آگاہی کے لیے ایک واک کی قیادت کرتے ہوئے۔ [پشاور پولیس]

ڈپٹی انسپکٹر جنرل خیبرپختونخوا پولیس قاضی جمیل الرحمان اکتوبر 2018 میں پشاور میں 'آئس' (کرسٹل میتھ) اور دیگر منشیات سے آگاہی کے لیے ایک واک کی قیادت کرتے ہوئے۔ [پشاور پولیس]

پشاور -- حکومتِ پاکستان کی جانب سے شروع کردہ ایک نئی موبائل فون ایپلیکیشن حکام کی جانب سے غیر قانونی منشیات کا مقابلہ کرنے کی تازہ ترین کوشش ہے۔

منشیات کے خطرات کے متعلق آگاہی بڑھانے نیز منشیات سے بچاؤ، عادی افراد کے علاج اور بحالی کے لیے وزیرِ اعظم عمران خان نے 6 جنوری کو اسلام آباد میں "زندگی" ایپ کا افتتاح کیا۔

افتتاحی تقریب کے دوران خان کا کہنا تھا، "منشیات ہماری مستقبل کی نسل کی زندگیوں کو تباہ کر رہی ہیں، اور اب یہ یونیورسٹیوں اور سکولوں تک پہنچ گئی ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بچے جو منشیات کے عادی ہو رہے ہیں ان میں اس عفریت سے نمٹنے کی پختگی مفتود ہے۔

خان نے کہا، "عام طور پر، لوگ شرم کی وجہ سے اس مسئلے پر بات نہیں کرنا چاہتے، مگر پوری قوم کو معاشرے سے منشیات کے خاتمے کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ "زندگی" ایپ والدین، اساتذہ اور دیگر افراد میںمنشیات کے خطرات کے متعلق، اور اس مسئلے سے کیسے نمٹنا ہے، سے آگاہی میں اضافہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔

ایپ، جو کہ ایپل ایپ سٹور یا گوگل پلے سٹور سے مفت ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے، منشیات سے آگاہی، اس کے تدارک اور علاج؛ بحالی مراکز کے مقامات؛ اور ان نوجوانوں، جنہوں نے اس خطرے پر قابو پایا، کی کامیابی کی کہانیوں کی معلومات پر مشتمل ہے۔

آگاہی میں اضافہ کرنا

پاکستانیوں نے ایپ کے آغاز کا خیرمقدم کیا ہے اور غیر قانونی منشیات سے لڑنے کے لیے عوام سے اس کی معلومات عام کرنے کو کہہ رہے ہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر وکیل، فہیم ولی نے کہا، "زندگی ایپ کا مناسب استعمال والدین میں آگاہی میں اضافہ کرنے میں مدد دے گا اور یہ منشیات کے خفیہ گروہوں کے بارے میں بہت سے مسائل حل کر سکتی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ والدین اور اساتذہ پر لازم ہے کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال میں ان پر نظر رکھیں اور جب انہیں محسوس ہو کہ کچھ غلط ہے تو ان کے ساتھ بات چیت کریں۔

ضلعی پولیس افسر مردان سجاد خان نے کہا، "پولیس اور اور دیگر ادارے ناصرف منشیات فروشوں کے خلاف جنگ کر رہے ہیں بلکہ عوام، خصوصاً طلباء و طالبات میں آگاہی پیدا کرنے میں ایک اہم کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ والدین اور اساتذہ پر لازم ہے کہ اگر انہیں اپنے علاقے اور ادارے میں کرسٹل میتھ، ہیروئین، چرس یا کسی بھی قسم کی منشیات کی فروخت کے متعلق کوئی بھی معلومات ملتی ہے تو وہ پولیس کو اطلاع دیں۔

خان نے کہا، "پولیس کبھی بھی ان افراد کے نام منظرِعام پر نہیں لائے گی جو کسی منشیات فروش کی اطلاع دینے کے لیے ان سے رابطہ کرتے ہیں۔ بلکہ منشیات فروش گروہوں کے خلاف جنگ میں مدد کرنے کے لیے ہم ان کے شکرگزار ہوں گے۔"

منشیات کے عفریت کو کچلنا

وفاقی وزیر برائے انسدادِ منشیات شہریار خان آفریدی نے وسط جنوری میں کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ایک تقریر کے دوران پاکستانیوں سے کہا کہ وہ غیر قانونی منشیات کے استعمال کا مقابلہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی منشیات کاسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء و طالبات کی جانب سےاستعمال حکومت اور معاشرے کے لیے مشکل ترین چیلنجز میں سے ایک ہے۔

انہوں نے طلباء و طالبات اور عوام سے کہا کہ وہ منشیات کے استعمال کے خاتمے میں مدد کے لیے جتنا زیادہ ممکن ہو سکے "زندگی" ایپ کو استعمال کریں۔

آفریدی نے کہا، "والدین اور اساتذہ پر لازم ہے کہ طلباء و طالبات اور دیگر افراد میں منشیات کے استعمال کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔"

پشاور سے تعلق رکھنے والی خاتونِ خانہ اور تین بچوں کی والدہ، یاسمین علی نے کہا، "صرف باپوں کو ہی نہیں ماؤں کو بھی ایپ استعمال کرنی چاہیئے اور جب انہیں پتہ چلے کہ ان کا بچہ کسی قسم کی منشیات کا عادی ہو رہا ہے تو پولیس کو اطلاع بھی دیں"۔

انہوں نے کہا کہ معاشرے کو اجتماعی طور پر منشیات کے کاروبار کے خلاف لڑنے اور جب بھی کسی گروہ کے متعلق پتہ چلے تو اس کی اطلاع دینے کی ضرورت ہے۔

یاسمین علی کا کہنا تھا، "پولیس اور دیگر اداروں پر لازم ہے کہ وہ سرحد کے آر پار اور ملک کے دیگر اضلاع میں سمگلنگ کو روکیں، جبکہ والدین اور عوام کو عفریت کے متعلق مزید آگاہی پیدا کرنی چاہیئے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500