جرم و انصاف

'آئس سے چھٹکارے کے ہفتے' کے لیے پشاور کے کاروباری ادارے، محکمۂ انسدادِ منشیات متحد

از عدیل سعید

نوجوانوں میں 'آئس' کے استعمال کے متعلق آگاہی میں اضافہ کرنے کے لیے تاجروں اور پولیس نے اکتوبر میں قصہ خوانی بازار پشاور میں ایک ریلی کا انعقاد کیا۔ [عدیل سعید]

نوجوانوں میں 'آئس' کے استعمال کے متعلق آگاہی میں اضافہ کرنے کے لیے تاجروں اور پولیس نے اکتوبر میں قصہ خوانی بازار پشاور میں ایک ریلی کا انعقاد کیا۔ [عدیل سعید]

پشاور -- پشاور کی تاجر برادری طلباء و طالبات کی جانب سے کرسٹل متھ، یا "آئس" کے استعمال کے خلاف لڑائی میں خیبرپختونخوا (کے پی) کے محکمۂ انسدادِ منشیات (اے این ایف) کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

پشاور میں تاجروں کی تنظیم، پشاور شہر کے چھوٹے تاجران، کے صدر عاطف حلیم نے کہا، "آئس کے خلاف اے این ایف کے ساتھ ہاتھ ملانے کا فیصلہ نوجوانوں، خصوصاً طلباء و طالبات میں اس نشے کے خطرناک طور پر بڑھتے ہوئے استعمال کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔"

ان کا کہنا تھا، "تاجر برادری اور اے این ایف مل کر دسمبر کے آخر میں 'آئس سے چھٹکارے کا ہفتہ' منائیں گے اس مقصد کے ساتھ کہ آئس کے خطرات اور ہماری نوجوان نسل کو اس خطرے سے بچانے کے لیے طریقوں کے متعلق آگاہی میں اضافہ کیا جائے۔"

عاطف نے کہا، "پشاور کے تاجروں نے سابقہ کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر کے ساتھ مل کر نومبر 2019 میں منشیات، خصوصاً آئس، کے خلاف لڑنے میں اے این ایف کو معاونت کی پیشکش کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ تاجر برادری پہلے ہی سے پولیس اور اے این ایف کی کوششوں میں معاونت کرتی رہی ہے، مگر ایک ہفتہ طویل تقریب میں اس مقصد میں کاروباری رہنماؤں کی وابستگی اور صورتحال کی سنگینیپر بات ہو گی۔

مظہر نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا اور اے این ایف کو تاجر برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ہدایات دیں۔

منشیات کے نقصانات

عاطف کے مطابق، آئس سے چھٹکارے کے ہفتے کے دوران، مقامی لوگوں کو آئس کے نقصانات کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے مختلف عوامی مقامات پر واک کی جائیں گی۔

ہونے والی گفتگو والدین کے لیے انسدادی اقدامات، بشمول ان کے بچوں کے روئیوں کا مشاہدہ کرنے پر مرکوز ہو گی۔

انہوں نے کہا، "اس مہم کے دوران علماء اور مساجد کے خطیبوں، نجی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں اور مالکان، کالم نگاروں اور پولیس کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کیا جائے گا۔"

عاطف نے کہا کہ آگاہی کے لیے واک کے علاوہ، نوجوانوں کو ہدف بنانے کے لیے مہم کا ایک سوشل میڈیا کا پہلو بھی ہو گا۔

"خاص طور پر نوجوانوں میں، نشے کی لت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف آگاہی میں اضافہ کرنے کے لیے تاجر برداری کی جانب سے اختیار کردہ طریقۂ کار بہت زیادہ قابلِ تحسین ہے،" یہ کہنا تھا ڈاکٹر اعظم شعیب کا جو آئس سے بحالی کے مرکز (آئی آر سی) پشاور میں بحالی افسر ہیں۔.

انہوں نے کہا کہ آئس کے نشے کی عادت وباء بنتی جا رہی ہے اور تمام شعبوں کے افراد کو اس نشے کے خلاف لڑائی میں آگے آنا چاہیئے، ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام کو لازماً اس نشے کے مضمرات اور صحت پر منفی اثر کے متعلق تعلیم دی جائے۔

شعیب نے کہا کہ والدین کو اپنے بچوں کے رویئے کا مشاہدہ کرنے اور ان کی صحت میں ہونے والی ظاہری تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنے کے ذریعے آئس کے نشے کی لت کی علامات کی تعلیم دی جانی چاہیئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیشاب کا ایک سادہ سا ٹیسٹ بھی اس نشے کی لت میں ملوث کسی بھی فرد کی شناخت کر سکتا ہے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ کسی بھی نشے کے عادی کی بروقت تشخیص اور علاج بحالی کے لیے ناگزیر ہیں؛ بصورتِ دیگر، انسانی صحت پر نشے کا اثر بہت خطرناک ہوتا ہے۔

تشدد کی طرف جھکاؤ

یونیورسٹی آف پشاور میں ایک ماہرِ عمرانیات، ڈاکٹر ظفر خان نے کہا، "آئس سے مسحور ہونے کے عمل میں ۔۔۔ یونیورسٹیوں میں اضافہ نظر آ رہا ہے اور یہ نوجوانوں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب بن رہا ہے۔"

خان نے کہا کہ نوجوانوں میں منشیات کا استعمال ان کے تشدد اور جرم کی طرف جھکاؤ میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں تعصب پسندی اور انتہاپسندی کے لیے حساس بناتاہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے بہت سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔

خان نے طلباء و طالبات کی نشے کی عادت کو ختم کرنے میں ان کی مدد کے لیے یونیورسٹی کی سطح پر نفسیاتی مشاورت کے مراکز قائم کرنے کی تجویز دی۔

محمد صادق، پشاور کے ایک شہری جن کا بیٹا منشیات کا عادی ہے، نے کہا، "تاجر برادری کی جانب سے یہ بہت اچھی پہل کاری ہے، اور یہ ہمارے بچوں کو اس مہلک نشے سے بچانے کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ آگاہی نوجوانوں اور والدین دونوں کے لیے لازمی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ یہ بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ منشیات کے استعمال میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اچھا

جواب