فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے رہنماؤں نے سوموار (23 ستمبر) کو اتفاق کیا ہے کہ اس مہینے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملہ ایرانی حکومت نے کیا تھا اور انہوں نے تہران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید "اشتعال انگیزی" کی بجائے بات چیت کا انتخاب کرے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور برطانوی وزیرِ اعظم بورس جونسن نے عبقائق اور خوریس تنصیبات پر دھماکوں پر امریکی نتائج کی تائید کی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائیڈ لائنز پر ہونے والی ملاقات کے بعد فرانس کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا، "'ہمارے لیے یہ واضح ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری ایران پر عائد ہوتی ہے۔ اور کوئی توضیح نہیں ہے۔"
تینوں ممالک کا کہنا تھا کہ مگر اس کا حل سفارتکاری ہے۔
ان کا کہنا تھا، "ہم ایران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بات چیت کرے اور نئی اشتعال انگیزیوں اور صورتحال کو مزید بدتر کرنے سے گریز کرے۔"
انہوں نے مزید کہا، "حملوں نے خطے میں صورتحال کی اصلاح کرنے، تمام فریقین کے ساتھ متواتر سفارتی کوششیں اور مشغولیت کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا ہے۔"
بڑھتے ہوئے تشویشناک واقعات کے ایک سلسلے کے بعد خلیج کے علاقے میں تناؤ میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہےبشمول اس واقعہ کے جب مسلح حملہ آور کشتیوں، جن کے متعلق یقین ہے کہ وہ ایرانی حکومت کے اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں (آئی آر جی سی) کی ملکیت ہیں، نے جولائی میں ایک برطانوی ٹینکر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
چند روز بعد امریکی بحریہ نے ایک ایرانی ڈرون تباہ کیا تھا جب اس نے آبنائے ہرمز کے داخلے پر امریکی بحریہ کے ایک بحری جہاز کو دھمکایا تھا۔
شدید نقصان
20 ستمبر کو سعودی عرب نے خوریس میں ریاستی تیل کمپنی آرامکو کی تنصیبات اور عبقائق میں دنیا کی سب سے بڑی تیل تیار کرنے والی جگہ پر حملوں سے شدید نقصان ہونے کا انکشاف کیا تھا۔
14 ستمبر کو ہونے والے حملوں، جنہوں نے سعودی عرب کی تیل کی نصف پیداوار بند کروا دی ہے، ان کی ذمہ داری تہران کی پشت پناہی کے حامل یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کی تھی، جبکہ واشنگٹن نے تہران پر انگلی اٹھائی ہے، اور حملے کو "جنگی کارروائی" کہہ کر اس کی مذمت کی ہے۔
آرامکو کے حکام کا کہنا تھا کہ ایک کارروائی میں عبقائق پر 18 بار حملہ ہوا، جبکہ نزدیکی خوریس پر چار بار حملہ ہوا جس سے کئی دھماکے ہوئے اور آسمان سے باتیں کرتے شعلے بلند ہوئے جنہیں بجھانے میں کئی گھنٹے لگے۔
آرامکو کئی درجن بین الاقوامی صحافیوں کو یہ دکھانے کے لیے ان دونوں مقامات پر لے کر گئی کہ وہ مرمتوں کی رفتار بڑھا رہے ہیں، دنیا میں تیل کے سب سے بڑے پیداواری ملک کے اس حساس مرکز تک بہت کم رسائی دی جاتی ہے۔
مزید پابندیاں
امریکہ نے تہران پر پہلے ہی سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں بشمول اس کے مرکزی بینک، مگر "دہشت گردی" کی اضافی وجہ سے 20 ستمبر کو نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ امریکی حکومت نے کہا ہے کہ ایران کے مرکزی بینک نے امریکہ کی جانب سے بلیک لسٹ کیے گئے دو گروہوں کو "کئی بلین ڈالر" فراہم کیے ہیں۔
امریکی وزیرِ خزانہ سٹیون منوچن نے کہا، "وزارتِ خزانہ کی کارروائی کا ہدف ایک انتہائی حساس فنڈنگ کے نظام کو نشانہ بنانا ہے جسے ایرانی حکومت اپنے دہشت گردی کے نیٹ ورک، بشمول قدس فورس، حزب اللہ اور دیگر جنگجوؤں کی معاونت کے لیے استعمال کرتی ہے جو دہشت پھیلاتے ہیں اور خطے کو عدم استحکام کا شکار بناتے ہیں۔"
قدس فورس آئی آر جی سی کے لیے بین الاقوامی کارروائیاں انجام دیتی ہے، جبکہ حزب اللہ، جو لبنان میں شیعہ عسکری گروپ اور سیاسی جماعت ہے، ایران کے قریبی ترین علاقائی شرکائے کار میں سے ہے۔
10 ستمبر کو،امریکہ نے اپنے حکام اور محکمہ جات کے اختیارات میں توسیع کی تھی تاکہ وہ ہدف بنائیں دہشت گرد گروہوں کے قائدین کواور ایسے افراد اور اداروں کو جو دنیا بھر میں ان کی مالی معاونت کرتے ہیں۔
امریکی وزارتِ خزانہ کے بیان کے مطابق ایک نیا دستخط شدہ انتظامی حکم "امریکی حکومت کو دہشت گرد گروہوں کے قائدین اور اہلکاروں کو نیز ایسے افراد کو مؤثر طریقے سے ہدف بنانے کے قابل بناتا ہے جو دہشت گردی کی تربیت میں حصہ لیتے ہیں۔"
اچھا! یہ حقیقت ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ حوثی ملشیا خطے میں اپنے وسائل کے ذریعے ایسی جدید میزائل ٹیکنالوجی حاصل نہیں کر سکتے۔ پابندیوں کے بوجھ تلے دبنے کے بعد مایوس ایران کے پاس اپنے ازلی دشمن سعودی عرب پر غصہ نکالنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہے۔ ایسا بےوقوفانہ اقدام کر کے ایرانی حکومت پابندیوں کا سبب بنی۔
جوابتبصرے 2
مغربی اور امریکی ایک ایک کر کے مسلمان ممالک کو تباہ کر رہے ہیں اب انہوں نے تباہی کے لیے ایران کا انتخاب کیا ہے۔
جوابتبصرے 2