واشنگٹن، ڈی سی -- سوموار (8 اپریل) کے روز ایران کے اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں (آئی آر جی سی) کو دہشت گرد قرار دینے کے امریکی اقدام کے پیچھے اس تنظیم کی جانب سے دنیا بھر میں دہائیوں پر محیط جارحانہ کارروائیاں ہیں۔
ایک بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ بے مثال اقدام "اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ ایران ناصرف دہشت گردی کی ریاستی کفالت کرتا ہے، بلکہ یہ بھی کہ آئی آر جی سی سیاسی تدبیر کے ایک ذریعے کے طور پر دہشت گردی میں فعال طریقے سے شرکت کرتی ہے، اس میں سرمایہ کاری کرتی ہے، اور اسے فروغ دیتی ہے۔"
ٹرمپ نے کہا، "آئی آر جی سی اپنی عالمگیر دہشت گردی کی مہم کی ہدایت کاری اور اطلاق کے لیے ایرانی حکومت کا مرکزی ذریعہ ہے۔"
تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ امریکہ نے چھاپہ مار گروہوں یا دیگر زیادہ غیر رسمی تنظیموں کی بجائے، ایک غیر ملکی حکومت کے ایک جزو کو دہشت گرد تنظیم کے طور نامزد کیا ہے۔
![آئی آر جی سی کے ارکان ایران میں ایک کمانڈر کے جنازے میں شریک ہیں جو شام کی خانہ جنگی میں لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔ [ایرانی وزارتِ دفاع]](/cnmi_pf/images/2019/04/09/17581-funeral_iran-585_329.jpg)
آئی آر جی سی کے ارکان ایران میں ایک کمانڈر کے جنازے میں شریک ہیں جو شام کی خانہ جنگی میں لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔ [ایرانی وزارتِ دفاع]
ٹرمپ کے اعلان کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے، امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے تمام بینکوں اور کاروباری اداروں کو آج کے بعد سے آئی آر جی سی کے ساتھ لین دین کرنے پر تنبیہ کی۔
پومپیو نے کہا، "ایران کے قائدین انقلابی نہیں، بلکہ دادا گیر ہیں۔ دنیا بھر میں کاروباری اداروں اور بینکوں کا اب یہ واضح فرض ہے کہ وہ یقینی بنائیں کہ وہ جن کمپنیوں کے ساتھ مالی لین دین کرتے ہیں وہ کسی بھی مادی طریقے سے آئی آر جی سی کے ساتھ منسلک نہ ہوں۔"
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ نیا اقدام آئی آر جی سی کے ساتھ رابطے کو غیر قانونی بنائے گا اور "ہمارے وکلائے استغاثہ کو ان لوگوں پر الزامات عائد کرنے کے قابل بنائے گا جو آئی آر جی سی کی مالی امداد کرتے ہیں۔"
دہشت گردی کی ایک تاریخ
آئی آر جی سی سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد، سرحدوں کی حفاظت کرنے والی روایتی عسکری یونٹوں کے برعکس، علماء کی حکومت کے دفاع کے مشن کے ساتھ بنائی گئی تھی۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے آئی آر جی سی مشرقِ وسطیٰ اور اس کے آگے تک دہشت گردی کی بہت سی کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔
سنہ 1996 میں، سعودی عرب میں خبر ٹاورز اپارٹمنٹ کمپلیکس میں ہونے والے بم دھماکے میں 19 امریکی سرکاری ملازمت ہلاک اور دیگر درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ گزشتہ ستمبر میں ایک امریکی وفاقی عدالت نے آئی آر جی سی کو اس حملے کے لیے ذمہ دار پایا تھا۔
سنہ 2011 میں، امریکہ نے کہا تھا کہ اس نے واشنگٹن، ڈی سی میں امریکہ میں سعودی سفیر کو ہلاک کرنے کا قدس فورس کا ایک منصوبہ ناکام بنایا تھا۔
آئی آر جی سی کی قدس فورس، جس کا نام یروشلم کے لیے استعمال ہونے والا عربی لفظ ہے، غیر ملکی مشنوں، انتہاپسند گروہوں، بشمول عراقی باغیوں، حزب اللہ اور حماس کو تربیت فراہم کرنے، سرمایہ اور ہتھیار فراہم کرنے میں بھی خصوصی مہارت رکھتی ہے۔
ملک کے اندر، پاسداران نے بہت زیادہ سیاسی اور اقتصادی اثرورسوخ حاصل کیا ہوا ہے، جس کے متعلق کچھ اندازے بیان کرتے ہیں کہ وہ ایرانی معیشت کے نصف تک کو اپنے قبضے میں لیے ہوئے ہیں۔
قدس فورس سنہ 1994 میں مبینہ طور پر ارجنٹینا کے ایک یہودی علاقائی مرکز پر خودکش بم دھماکے میں شامل تھی، جس میں 80 سے زائد افراد ہلاک اور تقریباً 300 زخمی ہو گئے تھے۔
یہ دہشت گردی کی محض چند ایک کارروائیاں ہیں جن کو گزشتہ برسوں میں آئی آر جی سی کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔
آئی آر جی سی کے القاعدہ کے ساتھ بھی مضبوط روابطرہے ہیں، جس کا ثبوت ایران کی جانب سے ایک بڑی تعداد میں القاعدہ کے ان عناصر کی میزبانی کرنا ہے جو بین الاقوامی حکام کی جانب سے مفرور قرار دیئے گئے ہیں۔
ان میں سیف العدل اور عدل رعدی بن سقر الوہابی الحربی شامل ہیں، جن پر 7 اگست 1998 کو کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر جڑواں خودکش حملے کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔
بیرونی ممالک میں مداخلت
قدس فورس شام کے اندر خانہ جنگی میں شامی حکومتی افواج کی حمایت کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اپنے علاقائی اثرورسوخ کو وسیع کرنے اور غلبہ قائم کرنے کی اپنی جستجو میں، آئی آر جی سی اپنے مفادات کی خاطر شام میں لڑنے کے لیے پاکستانی نوجوانوں کو بھرتی کرتی رہی ہے۔
اس حکمتِ عملی کا ثبوت زینبیون بریگیڈ سے ملتا ہے، جس کے عناصر آئی آر جی سی سے تربیت اور اسلحہ حاصل کرتے ہیں جس کے بعد ایران انہیں آئی آر جی سی سے الحاق شدہ دیگر دھڑوں اور شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے شام بھجوا دیتا ہے۔
مزید برآں، ایران نے آئی آر جی سی کی فاطمیون ڈویژن کے نام سے شام میں لڑنے کے لیے سنہ 2013 اور 2017 کے درمیان تقریباً 50،000افغان مہاجرینکو بھرتی کیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، ان افغانوں میں سے، تقریباً 10،000 اس کے بعد سے افغانستان واپس جا چکے ہیں۔
امریکی وزارتِ خزانہ نے جنوری میں دو ملیشیاؤں کو اپنی مالیاتی بلیک لسٹ میں شامل کیا تھا، جس کا مقصد ان کی بین الاقوامی مالیاتی حلقوں تک رسائی کو ختم کرنا اور ان کی کارروائیوں میں خلل ڈالنا ہے۔
جنوری میں امریکی وزیرِ خزانہ سٹیون نوشن نے کہا تھا، "ظالم ایرانی حکومت ایران میں مہاجر گروہوں کا استحصال کرتی ہے ۔۔۔ اور انہیں شام کی خانہ جنگی کے لیے بطور انسانی ڈھال استعمال کرتی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا، "وزارتِ خزانہ کا ایرانی پشت پناہی کی حامل ملیشیاؤں اور دیگر غیر ملکی پراکسیز کو ہدف بنانا ان غیر قانونی نیٹ ورکس کو بند کرنے کی ہماری جاری و ساری مہم کا دباؤ بڑھانے کا جزو ہے جنہیں ایرانی حکومت پوری دنیا میں دہشت گردی اور بدامنی برآمد کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔"
آئی آر جی سی شامی آمر بشار الاسد کی مضبوط اتحادی بھی ہے، جو اپنے ہی عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے سمیت بہت بڑے جنگی جرائم کا مرتکب رہا ہے۔
Allah sey dua hey k Pakistan ko shia aur badmashia dono sey mehfooz rakhay ameen
جوابتبصرے 5
پاکستان میں سے بھی ذیارت کے نام پر شعیہ کو گلگت اور پاڑا چنار اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے ایران لے جایا گیا
جوابتبصرے 5
بہترین اور حقائق پر مبنی تحریر ہے
جوابتبصرے 5
امریکہ ہی دنیا کا سب سے بڑا دھشت گرد ایران اس کے خلاف اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کر رہا ہے جو تمام امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے
جوابامریکہ سب سے بڑے دہشتگردوں میں سے ایک ہے اور اب اس کے خاتمہ کا وقت آگیا ہے اور انشااللہ بہت جلد یہ ذلیل ہو گا۔ امریکہ جو کہ مسلم دنیا میں آگ لگا رہا ہے، خود بھی اس آگ میں راکھ ہو جائے گا۔
جوابتبصرے 5