اسلام آباد -- پاکستان میں بینک جعلی بینک کھاتوں کے مسئلے کو حل کرنے اورملک میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں سرمایہ کاری کے خلاف لڑنےکے لیے تمام کھاتہ داروں کی بائیومیٹرک تصدیق کروا رہے ہیں۔
یکم دسمبر سے مؤثر، پاکستان میں کام کرنے والے بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں نے کھاتہ داروں کی شناخت کی بائیومیٹرک تصدیق شروع کر دی ہے، تاکہ پیسے جمع کروانے والے اصل افراد کے کوائف دریافت کیے جائیں۔
بینک اس عمل کے متعلق اپنے گاہکوں کو ٹیکسٹ میسیجز بھیجتے رہے ہیں، جو پھر تصدیق کے لیے اپنے بینک کی شاخوں میں جاتے ہیں۔
کراچی میں ڈیفینس فیز-V کے مکین، ڈاکٹر رامیش بھیروانی نے 9 دسمبر کو پاکستان فارورڈ کو بتایا، "محض بائیومیٹرک تصدیق کے لیے اپنے بینک کی برانچ میں جانا ہمارے لیے بہت دشوار ہے، لیکن ہم اس ملک گیر مہم کا حصہ ہیں، جو ہمارے کھاتوں کی حفاظت کو یقینی بناتی ہے اور ملک کے مالیاتی نظام کو مضبوط کرتی ہے۔"
ہر کھاتہ دار اور پالیسی سازوں کے لیےجعلی کھاتوں اور مذموم مقاصد کے لیے ان کے غلط استعمال، بشمول منی لانڈرنگکی حالیہ رپورٹیں سنگین تشویش کا باعث ہیں۔ تصدیق کے عمل کا مقصد اس مسئلے کو حل کرنا ہے۔
پاکستان میں بینکوں نے جون 2016 میں کھاتہ داروں کی بائیومیٹرک تصدیق کرنا شروع کیا تھا، اس لیے یہ نیا طریقۂ کار ان تمام کھاتوں پر اثرانداز ہوتا ہے جو اس تاریخ سے پہلے کھولے گئے تھے۔
دسمبر شروع ہونے کے بعد سے 13،000 سے زائد شاخیں روزانہ کھاتوں کی تصدیق کرتی رہی ہیں۔ حکام نے تصدیق شدہ کھاتوں کی تعداد کا انکشاف نہیں کیا ہے۔
نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کے ترجمان، سید ابنِ حسن نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اگر کوئی بائیومیٹرک تصدیق کا حصہ بننے سے انکار کرتا ہے، ہم اس فرد کا بینک کھاتہ اس وقت تک روک دیں گے جب تک کہ وہ تصدیق مکمل نہیں کروا لیتا۔"
لازمی تصدیق
بینکوں کو مالیاتی کوائف فراہم کنندہ کراچی کے مقامی، میٹس گلوبل کے انتظامی ڈائریکٹر، سعد بن نصیر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بائیومیٹرک کے عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ 'بے نامی' (نامعلوم) کھاتوں کا اخراج کرے گا جو غیر قانونی لین دین کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "جب تصدیق کا عمل مکمل ہو جائے گا، کھاتہ دار یہ کہنے کے قابل نہیں ہوں گے کہ انہیں اپنے کھاتوں کے بارے میں یا متعلقہ بینکنگ لین دین کے متعلق کچھ نہیں پتہ ہے۔"
کراچی پریس کلب (کے پی سی) کے صدر احمد ملک نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "ہم غریب رکشہ ڈرائیوروں اور جوس بیچنے والوں کے بینک کھاتوں کے ذریعے اربوں روپے کا لین دین ہونےکے متعلق سن رہے ہیں جس نے بینکاری کے پورے شعبے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے اور نظام میں موجود خامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ چند معاملات میں جرائم پیشہ عناصر نے مرحوم افراد کے ناموں پر کھاتے کھولے تاکہ غیر قانونی لین دین کرنے کے قابل ہو سکیں، انہوں نے مزید کہا کہ جب بائیومیٹرک تصدیق ہو جائے گی تو یہ عمل ختم ہو جائے گا۔
این بی پی کے ترجمان، حسن نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں میں لاکھو کھاتہ داروں کی صداقت کی شناخت کرنا ایک اچھی روایت ہے۔"
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بینکوں اور مالیاتی اداروں کے 50 ملین سے زائد کھاتہ دار ہیں، بشمول نجی اور سرکاری شعبے کی کمپنیاں، نیز چھوٹے اور درمیانے حجم کے کاروباری ادارے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر پیسہ جمع کروانے والے اپنا پیسہ سات بڑے بینکوں -- این بی پی، حبیب بینک لمیٹڈ، ایم سی بی بینک، یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، الائیڈ بینک لمیٹڈ، سینڈرڈ چارٹرڈ بینک آف پاکستان اور بینک الفلاح لمیٹڈ -- میں رکھتے ہیں۔
دہشت گردی میں سرمایہ کاری کے خاتمے میں رکاوٹیں
کراچی کے مقامی دی فنانشل ڈیلی کے انتظامی مدیر، منظر نقوی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "اصل مسئلہ ان جعلی کھاتوں پر نافذ العمل قوائد و ضوابط کے موزوں اطلاق کا ہے جومنی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں سرمایہ کاریکے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔"
انہوں نے خبردار کیا کہ کھاتوں کے غلط استعمال کے خلاف جنگ کچھ گہری کشیدگی پیدا کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بینک حکام اکثر کھاتوں کے غلط استعمال کے متعلق اطلاع اپنے صدر دفاتر یا سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو نہیں دیتے کیونکہ ان پر مستفید ہونے والوں کا اثرورسوخ محسوس ہوتا ہے۔
نقوی نے کہا کہ چند ہفتے قبل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے کئی جعلی کھاتوں کو شناخت کیا تھا جو منی لانڈرنگ کرنے والوں کے زیرِ استعمال تھے، انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ بینک اور ایس بی پی کارروائی کرنے میں ناکام رہے، یہ بھی بااثر افراد کی دشمی مول لینے سے بچنے کے لیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ تاہم، ایف آئی اے کو وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کی جانب سے احکامات ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
این بی پی کے حسن نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ تصدیق کا عمل مکمل کرنے کے لیے بینکوں سے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ 31 دسمبر تک کی آخری تاریخ تک یہ کام مکمل نہیں ہو سکے گا کیونکہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کا بائیومیٹرک کا نظام کام کا اتنا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ کام کے دنوں میں، دن 11 بجے کے بعد نادرا کے سسٹیم پر بوجھ غیرمعمولی ہو جاتا ہے کیونکہ بینکوں کا ڈیٹا اسے مغلوب کر دیتا ہے۔