کوئٹہ -- تجزیہ کاروں اور حکام کا کہنا ہے کہ ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کا تازہ ترین دورۂ پاکستان اسلام آباد کو تہران کے امریکہ مخالف خارجہ پالیسی اور علاقائی ایجنڈے میں شامل کرنے کی ایک ناکام کوشش کا جزو تھا۔
30 اگست کو اپنے حالیہ دورۂ اسلام آباد میں،ظریف نے نومنتخب وزیرِ اعظم عمران خان، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر کلیدی حکومتی حکام سے ملاقاتیں کیں۔
خان کے بطور وزیرِ اعظم انتخاب کے بعد سے،تہران نے خود کو اسلام آباد کا منظورِ نظر بنانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ ڈان نے خبر دی کہ خان کے نام ایک خط میں، ایرانی صدر حسن روحانی نے اسلام آباد کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے ایران کی رضامندی کا اظہار کیا۔
اس سال ایران نے14 اگست کو پاکستان کا 72 واں یومِ آزادیاپنی شاہراہوں کے ساتھ ساتھ بل بورڈز پر اور عوامی سواریوں میں الیکٹرانک سکرینوں پر تہنیتی پیغامات آویزاں کرتے ہوئے منایا۔
اسلام آباد کے مقامی ایک اعلیٰ دفاعی اہلکار، احتشام صادق نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پاکستان اور ہمسایہ ممالک کے درمیان روابط علاقائی امن و استحکام میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن ہم اپنے قومی تزویراتی مفادات پر یقین رکھتے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "اگرچہ ہمارے [پاکستان کے] ایران کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات ہیں، ہم ان تعلقات کی وجہ سے ایران کے ہر اقدام کی حمایت نہیں کرنے والے۔"
صادق نے کہا، "ایران نے سفارتی طور پر اپنی پوری کوشش کی کہ ۔۔۔ ظریف کے حالیہ دورۂ پاکستان کو معمول کا دورہ بیان کیا جائے، لیکن، درحقیقت ۔۔۔ ایران نے اپنے امریکہ مخالف مؤقف پر پاکستان کی کھلے عام حمایت طلب کی ہے۔"
ایرانی اثرورسوخ وسیع کرنے کی ایک کوشش
صادق اور دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق، مفاہمت کی ایرانی کوششیںقطعی طور پر تہران کے مفاد میں ہیں۔
صادق نے کہا، "ایران اب ایشیاء میں اپنے متنازعہ کردار کے باعث بڑے تذبذب میں ہے، اس لیے ایرانی رہنماء دنیا کو یہ دکھانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ اس کے ہمسائے ۔۔ بشمول پاکستان ۔۔ ممکنہ اتحادی رہیں گے۔"
انہوں نے مزید کہا، "ایران بلوچستان سے ملحقہ پاکستانی سرحدی علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں مصروفِ عمل ہے۔"
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر راولپنڈی کے خفیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ اطلاعات بتاتی ہیں کہ ایران پاکستان کے مختلف صوبوں میں شیعہ تنظیموں کو امریکہ کی معاشی پابندیوں کے خلاف مستقبل کے اقدام کی پاکستان کی جانب سے حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
ذریعے نے کہا، "ایران پاکستان میں کئی تنظیموں کی کفالت کر رہا ہے، اور کچھ شیعہ علماء اور رہنماء جو ان تنظیموں کو چلا رہے ہیں زیادہ تر زیرِ نگرانی فہرست میں ہیں۔ ہم اپنی قومی سلامتی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی نومنتخب حکومت ملک کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لے رہی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ "پاکستان کی حفاظتی حکمتِ عملی پورے ملک کے لیے اور بہت جامع ہے، لہٰذا کوئی بھی ہماری سرزمین کو کسی اور کے مقصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔"
انہوں نے کہا، "پاکستان کے دفاعی ادارے ایران کے ساتھ ہماری سرحد کے اپنے حصے کو محفوظ بنانے میں ایک مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں ۔۔۔ اثرورسوخ کی کوئی بھی کوشش یا [ایران کی جانب سے] کسی بھی دخل اندازی کی کوئی بھی کوشش پاکستان میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔"
ایران کو پاکستان کی ضرورت ہے
اسلام آباد کے مقامی خارجہ امور کے ایک اعلیٰ تجزیہ کار، ڈاکٹر طلعت شبیر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "پاکستان کے داخلی امور میں ایرانی شمولیت، بلوچستان میں بدامنی میں اس کا کرداراور پاکستان مخالف عناصر کے لیے اس کی حمایتاسے پاکستان کے لیے ایک ناقابلِ بھروسہ شریکِ کار اور ہمسایہ بناتی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ حالیہ حالات میں، ایران پر لازم ہے کہ اپنی خارجہ پالیسی پر نظرِ ثانی کرے یہ یقینی بناتے ہوئے کہ مستقبل میں یہ اب جتنا متنازعہ کردار ادا کرتا ہے اس سے کم متنازعہ کردار ادا کرے گا۔ شبیر نے کہا، "میری رائے میں، چونکہ ایران کے ایشیاء اور خلیجی ریاستوں میں اپنے مفادات ہیں، حکومتِ پاکستان، کو بھی، وہی کرنا چاہیئے جو [اس کے لیے] بہترین ہے۔"
شبیر نے مزید کہا، "ہمسایہ ممالک میں ایرانی مداخلت خطے میں اس کے منفی کردار کو نمایاں کرتی ہے، اور پاکستان نے ہمیشہ ایسی مداخلت کی مخالفت کی ہے۔"
انہوں نے کہا، "چند غیر ملکی تنظیمیں جو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کر رہی ہیں ایران کے ساتھ مضبوط روابط رکھتی ہیں۔۔ اور ایسے روابط پاکستان اور ایران کے تعلقات میں ایک بڑی اشتعال انگیزی کا کام بھی کر سکتے ہیں۔"
شبیر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، "ہمیں لازماً یہ نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے کہ ایران کو [پاکستان کے] تزویراتی جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے پاکستانی حمایت کی ضرورت ہے، اور اسے افغانستان کے معاشی امکانات میں اپنی توانائی کے لیے ناصرف بطور ایک منڈی بلکہ اپنی توانائی [کے وسائل] کو وسط ایشیائی ممالک اور چین کو فروخت کرنے کے لیے اہم عبوری راستے کے طور پر بھی گہری دلچسپی ہے۔"
امریکہ کا پالتو
جوابتبصرے 14
Is page pe kabi b aisa bayan ya khabar nhe dekha ham na jo iran jiasa asool pasand air hamsaya mulk ki ache bat aur kirdar ko ujagar kara.lagta ha yeh page b lifao aur saudi fund sa chalta ha
جوابتبصرے 14
Aik ghair mantaqi aur jalhilan tajziya. Agar GHQ mein esi soch rakhne wale maujood hain tho ye mulk kabhi tariqi se humkinar nahi ho sakta
جوابتبصرے 14
درست نہیں
جوابتبصرے 14
یکطرفہ اور غیر منطقی تجزیہ ھے۔
جوابتبصرے 14
Iran thk keh rha hy Pakistan ko Iran ka sath Dena Chahiay Iran hi tu Duniya mey wahid Country hy jo America ko Shi Ankhein Dikhata hy America kbi b hmara ithadi nhi ho sakta Wo hmesha hmein apny maksad k liay Istmaal kry Gaa.
جوابتبصرے 14
نہایت معلوماتی
جوابتبصرے 14
نہایت خوش اسلوب، خوش بیان، معلوماتی اور حقائق بیان کرنے والا مکالہ۔ پاکستان
جوابتبصرے 14
Ap ki taqrir tasub sa bari 2 hamsaya mamalik ka bech fasad falana ma aham kardar karna wali ha d
جوابتبصرے 14
تسلیمات
جوابتبصرے 14
میرا خیال ہے کہ پاکستان اور ایران میں بڑا مسئلہ چاہ بہار بندرگاہوں کا ہے۔ جو ایران نے پاکستان کے حریف ملک کو دے دی ہے
جوابتبصرے 14
ایک طرف تو ایران چاہ بہار بندرگاہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے حوالے کر رہا ہے، اور دوسری طرف وہ پاکستان سے خیر سگالی کی توقعات بھی رکھتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں، پاکستان کبھی ایران کی معاونت نہیں کرے گا۔ ایران کے عزائم ہی اس کی بربادی کے لیے کافی ہیں۔
جوابتبصرے 14
ایران نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی خلاف ورزی کی ہے اور میرا خیال ہے یہ کبھی بھی پاکستان کا حقیقی اتحادی نہیں ہو سکتا۔ حالیہ سیاسی صورتِ حال میں پاکستان کو دوسروں کے مطالبات پر کام کرنے اور سوچنے کے بجائے ذاتی مفاد کی پالیسی اپنانی چاہیئے۔ پاکستان زندہ باد۔
جوابتبصرے 14
سن 79 سے اب تک ایران شدت سے اپنے فرقہ ورانہ نظریہ کو برآمد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔ایرانی حکومت نے کسی ہمسائے کو نہیں بخشا۔۔۔ عراق، بحرین اور یمن ایرانی مداخلت کی بہترین مثالیں ہیں۔۔۔ پاکستان بھی مستثنیٰ نہیں۔۔۔ کلبھوشن یادیو کا نیٹ ورک ایران سے چلایا جا رہا تھا۔ یہ حقیقت ثابت ہے کہ عزیر بلوچ کو ایرانی خفیہ سروس چلا رہی تھی۔ وہ اپنی گرفتاری کے وقت ایرانی پاسپورٹ پر دبئی داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایرانی پاکستان میں شعیہ فرقہ ورانہ گروہوں کو مالیات فراہم کرتے ہیں اور نتیجتاً ہماری قومی سلامتی پر سمجھوتا ہوتا ہے۔۔۔
جوابتبصرے 14