سلامتی

افغانستان میں ایرانی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے غنی نے محقق کو برخاست کر دیا

عبدالغنی کاکڑ

سابق نائب چیف ایگزیکٹو محمد محقق 2017 میں تہران میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ۔ دونوں کے درمیان دوبارہ ملاقات گزشتہ نومبر میں تہران میں 32 ویں بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس پر ہوئی۔ [فائل]

سابق نائب چیف ایگزیکٹو محمد محقق 2017 میں تہران میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ۔ دونوں کے درمیان دوبارہ ملاقات گزشتہ نومبر میں تہران میں 32 ویں بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس پر ہوئی۔ [فائل]

تہران -- ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ صدر اشرف غنی کی جانب سے محمد محقق کو برخاست کرنا محض ایک سیاسی ادل بدل نہیں تھا اور اس فیصلے کی بنیاد محقق کے ایرانی مفادات کے لیے لابنگ کرنے پر سنگین تشویشیں تھیں۔

غنی نے 24 جنوری کو ایک صدارتی فرمان جاری کیا تھا جس میں محقق کو چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے نائب کے طور پر ان کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا تھا۔

ایران-حمایتی خیالات کی تاریخ

محقق طویل عرصے سے ایران-حمایتی خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ منگل-بدھ (6-5 فروری) کو ماسکو میں حزبِ اختلاف کے سیاستدانوں اور طالباب کے درمیان مذاکرات میں ان کی حالیہ شرکت نے ان کے مشکوک اتحاد کو مزید اجاگر کیا ہے۔

گزشتہ نومبر کے آخر میں، محقق نے تہران میں 32 ویں بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس میں شرکت کی تھی۔

نائب چیف ایگزیکٹو محمد محقق نے نومبر میں تہران میں ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی نے ایرانی سیاسی اور عسکری مفادات کی حمایت کرنے پر جنوری میں انہیں برخاست کر دیا۔ [عبدالغنی کاکڑ]

نائب چیف ایگزیکٹو محمد محقق نے نومبر میں تہران میں ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی نے ایرانی سیاسی اور عسکری مفادات کی حمایت کرنے پر جنوری میں انہیں برخاست کر دیا۔ [عبدالغنی کاکڑ]

صدر اشرف غنی 5 فروری کو کابل میں مختلف حکام اور مشیروں سے بات چیت کرتے ہوئے۔ [افغان صدارتی محل]

صدر اشرف غنی 5 فروری کو کابل میں مختلف حکام اور مشیروں سے بات چیت کرتے ہوئے۔ [افغان صدارتی محل]

عینی شاہدین کے مطابق، اس کانفرنس میں، محقق نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات کی تھی اور ایک افغان مخالف بیانیہ کے کھلے عام حمایت کی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ افغان شام اور عراق میں ایران کی جنگ کی بہت زیادہ حمایت کرتے ہیں، اور انہوں نے اس تنازعے کو "جہاد" قرار دیا، اور انہوں نے اسلامی قائدین کو ایران کے عسکری مقاصد کی حمایت کرنے کی ترغیب دی۔

کانفرنس میں ایک تقریر میں، محقق نے افغانستان میں ایرانی مداخلت اور ایران کے اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں (آئی آر جی سی) کی قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی دونوں کو سراہا تھا۔

انہوں نے اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں کے فاطمیوں بریگیڈ کے بینر تلے شام میں لڑنے کے لیے افغان "جنگجوؤں" کی ایرانی بھرتی کے لیے حمایت کا اظہار کیا تھا۔

وائس آف امریکہ کے مطابق، محقق نے کہا، "میں ان تمام جنگجوؤں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے عراق، شام، افغانستان، پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں ان جنگوں میں شرکت کی۔

غنی اور عبداللہ نے فوری طور پر افغان حکومت کے مؤقف کو دوہرایا اور خود کو محقق سے دور کرنا شروع کر دیا۔

اپنے نائب کا نام لیے بغیر، عبداللہ نے 27 نومبر کو کہا، "حال ہی میں چند مخصوص بیانات دیئے گئے، تاہم، افغانستان دوسرے ممالک کی جنگوں میں افغانوں کی شرکت کے خلاف ہے ۔۔ جو کہ [اس پالیسی] کے مطابق ہے جس کی بنیاد پر افغانستان خود اپنے شہریوں کو امن اور آرام فراہم کرنے کا متلاشی ہے۔"

29 نومبر کو ایک بیان میں افغان صدارتی محل کی جانب سے کہا گیا کہ تہران میں محقق کے بیانات "افغان پالیسی، قومی مفادات، استحکام، سیکیورٹی اور نافذ العمل ملکی قوانین کے قطعاً اور صریحاً برعکس ہیں۔"

قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وزارتِ خارجہ کے ڈیسک پر کام کرنے والے پاکستان کے ایک اعلیٰ انٹیلیجنس اہلکار نے سلام ٹائمز کو بتایا، "ہمیں چند افغان ہم منصبوں کے ذریعے پتہ چلا کہ صدر اشرف غنی کے لیے محمد محقق کو ہٹانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔۔۔ کیونکہ وہ قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے تھے۔"

انہوں نے کہا، "یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ افغانستان نے ملک میں ایرانی اثرورسوخ کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کی ہے۔ ماضی میں، مغربی افغانستان میں حکام نے افغانستان میں تہران کی بڑھتی ہوئی مداخلت پر سنگین تحفظات کا اظہار کیا تھا۔"

انہوں نے کہا، "افغان حکام کا ماننا ہے کہ آئی آر جی سی افغانستان میں عسکریت پسندوں کو پناہ، ہتھیار، پیسہ اور دیگر نقل و حمل کی معاونت فراہم کر رہی ہے۔"

انہوں نے کہا، "افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں حالیہ پیش رفتیں مکمل طور پر ایرانی تزویراتی مفادات کے خلاف ہیں؛ لہٰذا، ایران افغانستان میں اپنی پراکسیز کو استعمال میں لاتے ہوئے رکاوٹیں کھڑی کر سکتا ہے۔"

افغانستان میں امن کی مخالف

صوبہ خوست کے ایک تاجر اور ایک بار کے لیے پارلیمانی امیدوار، اختر زمان رئیسی نے کہا کہ محقق نے تہران میں نہ صرف افغان مفادات کو تباہ کیا بلکہ ماسکو میں طالبان نمائندوں کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں شامل ہو کر کابل کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی۔

صوبہ خوست کے ایک تاجر اور ایک بار کے لیے پارلیمانی امیدوار، اختر زمان رئیسی نے کہا کہ محقق نے تہران میں نہ صرف افغان مفادات کو تباہ کیا بلکہ ماسکو میں طالبان نمائندوں کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں شامل ہو کر کابل کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی۔

رئیسی نے سلام ٹائمز کو بتایا، " امن عمل کے بیچ، افغان قیادت ملک کے سیاسی مستقبل کے لیے بہت فکرمند ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ محقق کو ان کے "منافقانہ طرزِ عمل" کی وجہ سے نکالا گیا تھا۔

رئیسی نے کہا، "تمام گروہ جو [افغانستان میں] غیر ملکی ایجنڈوں کے لیے مصروفِ عمل ہیں انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے کہا، "اپنی اختیارات کی طلب میں، افغانستان میں چند سیاستدان ریاست کی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی کر رہے ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ چند صوبوں میں دیگر سیاستدان "ایران کے ساتھ منسلک ہیں اور ملک میں ایک ایرانی اجارہ داری قائم کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔"

تاہم، انہوں نے پیش گوئی کی، "محقق اور ان کے اتحادی کبھی بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ اب افغان قوم افغان-مخالف [ایرانی] حکومت سے بہت زیادہ باخبر ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہمیں ایران کی جانب سے کسی بھلائی کی توقع نہیں ہے کیونکہ اس نے ہمیشہ افغانستان میں مداخلت کی ہے اور وہ بھی اپنے ذاتی مفادات کے لیے۔"

دیگر مبصرین متفق ہیں کہ محقق کے افعال پریشان کن اور نقصان دہ ہیں۔

کابل کے مقامی سینیئر سیاسی تجزیہ کار وکیل جان محمد نے سلام ٹائمز کو بتایا، "محمد محقق افغانستان میں بڑھتے ہوئے ایرانی سیاسی و عسکری اثرورسوخ کا اہم ذریعہ تھا۔"

انہوں نے کہا، "امن عمل افغانستان کی بقاء اور سالمیت کا مسئلہ ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ محقق نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں کھلے عام ایران کے ایجنڈے کی حمایت کی ہے۔ "محقق افغانستان میں تہران کی واضح مداخلت اور عسکریت پسندی کی پشت پناہی کے حق میں دلائل دیتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے۔"

انہوں نے کہا، "میری رائے میں، افغان حکومت کبھی بھی داخلی امور پر ایران کو اثرورسوخ حاصل نہیں کرنے دے گی۔"

جان محمد نے کہا کہ افغانستان میں امن پورے خطے میں امن کے لیے ضروری ہے۔ "تمام ہمسایہ ممالک پر لازم ہے کہ افغانستان میں امن عمل کی حمایت کریں۔"

انہوں نے کہا، "میری رائے میں، افغان حکومت کبھی بھی داخلی امور پر ایران کو اثرورسوخ حاصل نہیں کرنے دے گی۔"

جغرافیائی و سیاسی کھیل

قندھار کے مقامی وزارتِ خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار جو ماضی میں کوئٹہ، پاکستان میں افغان قونصلیٹ میں خدمات انجام دے چکے ہیں، نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سلام ٹائمز کو بتایا، "ایران کی افغانستان کے شمالی، مغربی اور چند دیگر وسطی حصوں سے تعلق رکھنے والے بااثر گروہوں پر بہت مضبوط گرفت ہے۔"

انہوں نے کہا، "میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ ملک کی قومی سلامتی کو سنبھالنے والے افغان حکام کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ٹھوس ثبوت موجود ہے کہ تہران فرح، ہرات اور افغانستان کے ایران سے ملحقہ دیگر مغربی صوبوں میں طالبان کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔"

تاہم، ایران کا ایجنڈہ اتنا زیادہ ہے کہ چند طالبان ارکان کو بھی ہضم نہیں ہوتا۔

اسلام آباد کے مقامی ایک دفاعی تجزیہ کار، غلام عباس نے کہا، "ایران سے منسلک افغان طالبان نے [امریکی خصوصی نمائندہ برائے افغان مصالحت] زلمے خلیل زاد کے ساتھ امن مذاکرات میں ایران کے ایجنڈے کے لیے کچھ جگہ بنانے کی اپنی پوری کوشش کی تھی۔"

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "تاہم، طالبان کی مرکزی قیادت ایرانی بیانیئے کے خلاف ہے، اور اس لیے وہ کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی ہے۔"

طالبان کے ساتھ اپنے مذاکرات میں امریکہ نے اصرار کیا ہے کہ افغانستان میں دیرپا امن کے لیے واحد حل صرف افغانوں کے مابین مذاکرات ہیں۔

ایران-حمایتی بیانیئے کی تعمیر

محقق کے ایک اور نقاد، اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں افغان امور پر خصوصی مہارت رکھنے والے پروفیسر، رشید احمد نے کہا، "محمد محقق کو نکالنے کی بنیادی وجہ وہ مشکوک کردار تھا جو وہ ایرانی مفادات کے لیے ادا کر رہا تھا۔"

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا، "محقق نہ صرف ایران کے افغانستان مخالف منصوبوں کی حمایت کر رہا تھا، بلکہ اسے افغانستان میں ایران-حمایتی بیانیہ تعمیر کرنے کے لیے بیجا مداخلت کرتے بھی پایا گیا تھا۔"

وہ بیانیہ ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کی جانب سے حالیہ بیانات میں سامنے آیا تھا۔

ظریف نے 9 جنوری کو این ڈی ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، "میرا خیال ہے کہ طالبان کے لیے کسی کردار کے بغیر افغانستان کا کوئی مستقبل ہونا ناممکن ہے۔"

ایران کے طالبان کے ساتھ رسمی مذاکرت پہلی بار دسمبر میں شروع کیے تھے۔

احمد نے کہا، "ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ اس کے حالیہ مذاکرات میں افغان حکومت کو اعتماد میں لیا گیا تھا،" انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان نے اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا اور افغانستان کے مستقبل میں طالبان کے کردار کے لیے ظریف کی حمایت کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے داخلی امور میں ایران کی متواتر مداخلت کے پیشِ نظر، غنی کے پاس محقق کو عہدے سے ہٹانے کی لازماً اچھی وجہ موجود ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ غالب امکان ہے کہ صدر نے "تہران کی ہدایات پر خصوصی عمل کرنے" پر محقق کو نکالنے سے قبل قومی سلامتی کے اہلکاروں کے ساتھ مشاورت کی ہو گی۔

احمد نے کہا، "ایران مغربی افغانستان میں اپنے اثرورسوخ کو وسیع کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔۔۔ اور افغانستان کے مستقبل میں ایک کردار حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔" ان اہداف کے حصول کے لیے، "ایران اپنی پراکسیز کے ذریعے افغانستان میں کچھ سیاسی تنازعات بھی پیدا کر سکتا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500