سلامتی

پاکستانی حکام نے سرحد پر ایران کی حالیہ جارحیت پر تنبیہ جاری کر دی

پاکستان فارورڈ

مئی 2016 میں ایک پاکستانی فوجی ملک کی سرحد پر نگہبانی کر رہا ہے۔ ایرانی فوج کی جانب سے پاکستان پر بلا اشتعال گولہ باری سے ایرانی سرحد پر تناوٴ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ [پاکستانی محمکہٴ دفاع]

مئی 2016 میں ایک پاکستانی فوجی ملک کی سرحد پر نگہبانی کر رہا ہے۔ ایرانی فوج کی جانب سے پاکستان پر بلا اشتعال گولہ باری سے ایرانی سرحد پر تناوٴ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ [پاکستانی محمکہٴ دفاع]

اسلام آباد – اختتامِ ہفتہ پر ایرانی افواج نے بلوچستان میں پاکستانی علاقہٴ عملداری پر گولہ باری کی، علی الصبح زوردار دھماکوں کی گونج سے مقامی افراد میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

ڈان کی خبر کے مطابق، حکام نے کہا کہ ایرانی بارڈر گارڈز نے ہفتہ (17 مارچ) کو پنجگور میں بلا اشتعال تقریباً چھ مارٹر گولے داغے۔

کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی، تاہم یہ واقعہ ایران کی جانب سے حالیہ مہینوں میں پاکستان کے علاقہٴ عملداری کی جارحانہ خلاف ورزیوں میں سے تازہ ترین ہے، جنہوں نے بارہا اسلام آباد کو احتجاج کرنے کے لیے متحرک کیا۔

مسلح جارحیت

پنجگور میں تعینات ایک اعلیٰ سیکیورٹی عہدیدار، محمّد نوید نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ایرانی بارڈر گارڈز کی جانب سے پاکستان کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی نے دوطرفہ تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے ، اور ہم نے اعلیٰ ایرانی سیکیورٹی عہدیداران کو ان کی حالیہ جارحیت پر ردِّ عمل ارسال کیے ہیں"۔

12 مارچ کو ایران کے وزیرِ خارجہ، محمّد جاوید ظریف اسلام آباد میں ادارہ برائے تذویری علوم میں ایک تقریب کے دوران خطاب کر رہے ہیں۔ ظریف کی جانب سے پاکستانیوں کو ان کی قوم کی خودمختاری کی خلاف ورزی نہ کیے جانے کی از سرِ نو یقین دہانی کرانے کی کوشش کے چند ہی روز بعد ایرانی بارڈر گارڈز نے پاکستان پر گولہ باری کی۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

12 مارچ کو ایران کے وزیرِ خارجہ، محمّد جاوید ظریف اسلام آباد میں ادارہ برائے تذویری علوم میں ایک تقریب کے دوران خطاب کر رہے ہیں۔ ظریف کی جانب سے پاکستانیوں کو ان کی قوم کی خودمختاری کی خلاف ورزی نہ کیے جانے کی از سرِ نو یقین دہانی کرانے کی کوشش کے چند ہی روز بعد ایرانی بارڈر گارڈز نے پاکستان پر گولہ باری کی۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

انہوں نے کہا، "ہماری سرزمین کبھی ایران کے خلاف استعمال نہیں ہوئی۔ ایرانی گارڈز کی جانب سے گولہ باری نے مقامی آبادی میں شدید خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے اور سینکڑوں افراد گولہ باری کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔"

نوید نے کہا، "ہم نے اعلیٰ ایرانی عہدیداران سے بارڈر گارڈز کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا ہے، جو کہ پاکستانی سرحدوں کی مجرمانہ خلاف ورزی کر رہے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "ہماری افواج کسی بھی مسلح جارحیت کا جواب دینے کی پوری طرح سے اہل ہیں۔"

نوید نے کہا کہ اگر ایران پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو درست کرنے سے متعلق سنجیدہ نہیں ہے تو مستقبل میں مزید پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا، "ایرانی سرحدی افواج نے ماضی میں بھی مسلسل سرحدی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے؛ ہم نے حالیہ خلاف ورزی سے متعلق وفاقی حکومت کو مطلع کر دیا ہے، تاکہ وہ سفارتی سطح پر اس مسئلہ سے نمٹے۔"

ظریف کا ناکام دورہ

یہ گولہ باری ایرانی وزیرِ خارجہ محمّد جاوید ظریف کے ایک تین روزہ دورہٴ پاکستان کے عواقب میں سامنے آئی۔

ظریف نے دفاعی انداز میں پاکستان کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے دورہ کا آغاز کیا کہ ایران اور اس کے سپاہِ محافظینِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) پاکستان کی سلامتی و خود مختاری کو سبوتاژنہیں کر رہے --گولہ باری کے حالیہ واقعہ کے ذریعے مسترد کیا گیا ایک دعویٰ۔

ظریف کے دورہ کے دوان، پاکستان نے ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت (ٹی اے پی آئی) پائپ لائن کے اس افتتاح کے موقع پر ایک ناکام حملے کی ایرانی حمایت --، جس میں پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عبّاسی بھی شریک تھے اور اس کی جانب سے ایرانی ملشیا میں پاکستانی شیعوں کی مسلسل بھرتیوں کی لگاتار ایرانی جارحیت پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے، پاکستانی انٹیلی جنس کے ایک اعلیٰ سابق عہدیدار نبیل یوسف نے کہا، "ایران خطے میں پاکستان مخالف عناصر کی حمایت کر رہا ہے، اور وہ [خطے میں] اپنی بڑھتی ہوئی جارحیت کے لیے سرحدی تناوٴ کو بھڑکانا چاہتا ہے۔"

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر دفاعی تجزیہ کار جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "ایران خطے میں ایک کلیدی کردار کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، اور پاکستان کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی اس کی جانب سے بدامنی کا شکار سرحدی علاقوں میں اپنا رسوخ بڑھانے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔"

انہوں نے کہا، "سرحد پار سے جاری خلاف ورزیاں پاکستان ایران تعلقات میں مزید رکاوٹیں پیدا کر سکتی ہیں۔"

[کوئٹہ سے عبدالغنی کاکڑ نے اس رپورٹ میں حصہ لیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500