سیاست

روس کے بحران میں دھنسے ہونے کے باعث ایران شام میں اپنا حق جتانے لگا

از ولید ابو الخیر

ویگنرگروپ کے کرائے کے فوجیوں کو، 3 نومبر کو جاری کی جانے والی اس تصویر میں، شامی شہر دیر ایزور کے قریب دیکھا جا سکتا ہے۔ [ریا فین /ٹیلیگرام]

ویگنرگروپ کے کرائے کے فوجیوں کو، 3 نومبر کو جاری کی جانے والی اس تصویر میں، شامی شہر دیر ایزور کے قریب دیکھا جا سکتا ہے۔ [ریا فین /ٹیلیگرام]

ایسے وقت میں جب روس یکے بعد دیگرے پیش آنے والے بحرانوں سے نپٹنے کی کوشش کر رہا ہے، جن میں یوکرین میں بھاری نقصانات سے لے کر ویگنر گروپ کی ناکام بغاوت کے بعد اس کے اندرونی استحکام کو خطرے میں ڈالنے والی دراڑیں شامل ہیں، ایرانی حکومت شام میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں کو وسعت دے کر فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے۔

شام، مشرق وسطیٰ میں روس کی توجہ کا مرکز رہا ہے، لیکن یوکرین پر حملے کے بعد کریملن کے وسائل پر بہت زیادہ دباؤ پڑا ہے، جس کی وجہ سے وہ شام سے کچھ افواج، کو یوکرین کے محاذ پر دوبارہ تعینات کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روسی افواج کے جزوی انخلاء نے، ایران کی سپاہِ پاسدرانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کے ساتھ اتحاد رکھنے والی افواج کے لیے، اس خلا کو پر کرنے اور شام میں اپنی موجودگی کو بڑھانے کا راستہ کھول دیا ہے۔

دریں اثنا، انہوں نے کہا کہ ایران کی جانب سے روس کو ڈرونز کی مسلسل فراہمی، جنہیں وہ یوکرین کے خلاف اپنی جنگ میں استعمال کر رہا ہے، نے ایرانی حکومت کو شام میں روس کے ساتھ معاملات میں کچھ فائدہ پہنچایا ہے۔

ویگنر گروپ کا ایک ٹینک، روس کے علاقے روسٹو-آن-ڈان میں 24 جون کو، جس دن اس گروپ نے روسی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی، دیکھا جا سکتا ہے۔ [روزیچ/ٹیلیگرام]

ویگنر گروپ کا ایک ٹینک، روس کے علاقے روسٹو-آن-ڈان میں 24 جون کو، جس دن اس گروپ نے روسی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی، دیکھا جا سکتا ہے۔ [روزیچ/ٹیلیگرام]

امریکی فضائیہ کے لیفٹیننٹ جنرل الیکسس گرینکیوچ نے 21 جون کو ایک بریفنگ میں کہا کہ "میرا خیال یہ ہے کہ ایران محسوس کرتا ہے کہ روس کا اس پر کچھ واجب الادا ہے، اور یہ کہ روس اب کسی نہ کسی طرح ایران کی طرف دیکھ رہا ہے۔"

آئی آر جی سی کی اتحادی ملیشیا کے ماہر شیار ترکو نے کہا کہ شام سے روسی انخلاء میں "حمیمیم جیسے بڑے فوجی اڈے شامل نہیں تھے"۔

انہوں نے کہا کہ لیکن وہ پورے شام میں پیش آئے اور ان میں "شامی فوج کے اڈے جہاں روسی افواج کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا؛ گولہ بارود کے گودام؛ اور ماسکو کی جانب سے شام کو روسی ہتھیاروں کی فراہمی کی جگہیں" شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ روسی افواج کی جگہ، "آئی آر جی سی کے ساتھ اتحادی ملیشیا، جن کے اثر و رسوخ کے علاقے روس کے ساتھ ملتے ہیں، خاص طور پر دمشق، حلب، مشرقی صحرا (بادیہ) اور دیر الزور" میں، آگے بڑھ آئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "شام کی موجودہ صورتحال کو مختصراً اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے: روس پیچھے ہٹ رہا ہے، ایران آگے بڑھ رہا ہے اور شامی عوام، جو 2011 سے قیمت ادا کر رہے ہیں، اکیلے ہیں اور امکان ہے کہ انہیں شکست ہی ہو گی"۔

برتری کی جستجو

الشرق سینٹر فار ریجنل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کے محقق فاتح السید، جو ایرانی امور میں مہارت رکھتے ہیں، نے کہا کہ "اگرچہ اتحادی، ایران اور روس شام پر کنٹرول کے لیے سخت دوڑ میں ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ شام میں ہر ایک کے مختلف عزائم ہیں، روس اسے مشرق وسطیٰ اور بحیرہ روم میں اسٹریٹجک طور پر قدم جمانے کے جگہ کے طور پر دیکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "جہاں تک ایران کا تعلق ہے، وہ شام کو لیونت میں اپنی موجودگی کے لیے ایک اہم راہداری کے طور پر دیکھتا ہے، نہ صرف اس کی سیاسی اور فوجی رسائی کے لیے بلکہ اس کی تجارتی رسائی کے لیے بھی"۔

شام کے ماہرِ اقتصادیات اور دمشق یونیورسٹی کے لیکچرر محمود مصطفی نے کہا کہ "شام کو ایرانی مصنوعات کی فروخت کے لیے ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "تاہم ایران کے لیے جو چیز زیادہ اہم ہے، وہ شام کے قدرتی وسائل جن میں فاسفیٹ اور تیل شامل ہیں، پر ان معاہدوں کے ذریعے کنٹرول حاصل کر کے ان سے فائدہ اٹھانا ہے، جو شامی حکومت کے ساتھ گزشتہ برسوں میں کیے گئے ہیں۔"

روس کی شامی حکومت کے کلیدی ساتھی کے طور پر، برتری حاصل کرنے کی جستجو، ویگنر گروپ کی حالیہ بغاوت کی وجہ سے کمزور پڑ گئی ہے - - جو کہ ایک ایسی روسی کرائے کی فوج ہے جس کی قیادت یوگینی پریگوزین کر رہے ہیں اور جو شام میں سرگرم ہے۔

العربی الجدید نے 27 جون کو خبر دی کہ ناکام بغاوت کے بعد، روسی ملٹری پولیس اور شامی حکومت کے انٹیلی جنس کے اداروں نے، شام کے مختلف صوبوں میں ویگنر کے رہنماؤں، عناصر اور بھرتی اہلکاروں کو گرفتار کیا ہے۔

وال سٹریٹ جرنل نے 28 جون کو خبر دی کہ روس کے نائب وزیرِ خارجہ سرگئی ورشینن شام کے صدر بشار الاسد کو یہ پیغام دینے کے لیے شام گئے کہ واگنر فورسز اب وہاں آزادانہ طور پر کام نہیں کریں گی۔

انہوں نے الاسد پر زور دیا کہ وہ ویگنر کے جنگجوؤں کو ماسکو کی نگرانی کے بغیر، شام چھوڑنے سے روکیں۔

مصری فوجی تجزیہ کار عبدالکریم احمد نے یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ اگر ویگنر گروپ کو شام میں کام کرنے سے روکا گیا تو طاقت کا خلا پیدا ہو جائے گا، کہا کہ "بغاوت نئے ممکنہ تنازعات کے لیے دروازے کھول دے گی"۔

روس کے لیے نتیجہ

قاہرہ یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر محی الدین غنیم نے کہا کہ "واگنر بحران کے نتیجے میں روس کا بڑا نقصان شام میں ہو گا۔"

انہوں نے کہا کہ روس اور ویگنر گروپ کے درمیان کسی قسم کی کشیدگی دونوں کو کمزور کر دے گی۔

عسکری تجزیہ کار وائل عبدالمطلب نے کہا کہ روس، فوجی اور انٹیلی جنس کمانڈروں کی جگہ لے گا جس سے شام، افریقہ اور یوکرین میں اس کی کارکردگی متاثر ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ "روسی فوج، ویگنر جیسی معمولی طاقت کے سامنے اور اس کے ساتھ ہی یوکرائنی افواج کے خلاف بھی غیر موثر ثابت ہوئی ہے۔"

انہوں نے نوٹ کیا کہ روسی انٹیلی جنس کے لیے بھی یہ بات درست ثابت ہوتی ہے، جس نے بغاوت کی کوشش سے قبل، پریگوزن کے ارادوں کا پتہ نہیں لگایا تھا۔

عبدالمطلب نے کہا کہ شام، لیبیا اور وسطی افریقی جمہوریہ (سی اے آر) جیسے ممالک میں، جہاں اس وقت تنازعات چل رہے ہیں، رہنماؤں کو سیاسی، عسکری اور مالی طور پر ایک مضبوط حامی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ واقعات نے، روسی حکومت کی ان ممالک کے ساتھ مضبوط شراکت دار رہنے کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "اگر اس مثلث کی ایک ٹانگ ہل جاتی ہے، تو اعتماد ختم ہو جائے گا اور وہ ممالک ایک مضبوط حامی کی طرف بڑھیں گے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500