ماحول

اخراج کو کم کرنے کے وعدے کے باوجود چین نے کوئلے سے چلنے والے نئے پلانٹس کی منظوری دے دی

اے ایف پی

چین کے شاملی صوبے ہیبی میں کوئلے سے چلنے والے ڈاٹانگ انٹرنیشنل ژہانگجیاکؤ پاور سٹیشن میں ایک کارکن ایک بتی کے ذریعے لوہے کے پائپ کاٹ رہا ہے۔ ]گریگ باکر/اے ایف پی[

چین کے شاملی صوبے ہیبی میں کوئلے سے چلنے والے ڈاٹانگ انٹرنیشنل ژہانگجیاکؤ پاور سٹیشن میں ایک کارکن ایک بتی کے ذریعے لوہے کے پائپ کاٹ رہا ہے۔ ]گریگ باکر/اے ایف پی[

گرین پیس نے پیر (24 اپریل) کو کہا کہ چین نے حجریہ ایندھن کے اخراج کو کم کرنے کے وعدے پر توانائی کی رسد کو ترجیح دی ہے، کیونکہ اس نے رواں برس کوئلے سے توانائی میں نمایاں اضافے کی منظوری دی ہے۔

دنیا کی دوسری بڑی معیشت اس میں ماحولیاتی تبدیلی لانے والی گرین ہاؤس گیسوں، جیسا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ (سی او 2) کی سب سے بڑی اخراج کنندہ بھی ہے ، اور اخراج سے متعلق چین کے عزم یہ دیکھے گئے ہیں کہ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو دو درجہ سے کافی کم رکھا جائے۔

تاہم، کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کی منظوریوں میں اضافہ نے ان خدشات کو تقویت دی ہے کہ چین 2026 اور 2030 کے درمیان اخراج کو بلند ترین سطح پر لے جانے اور 2060 تک کاربن نیوٹرل بن جانے کے اپنے ہدف سے ہٹ جائے گا۔

گرین پیس نے کہا کہ توانائی کے طالب چینی صوبہ جات میں مقامی حکومتوں نے 2023 کے پہلے تین ماہ کے اندر کم از کم 20.45 گیگاواٹس (جی ڈبلیو) کی کوئلہ سے چلنے والی توانائی کی منظوری دی۔

یہ گرین پیس کی جانب سے گزشتہ برس کے اسی عرصہ کے لیے رپورٹ کی گئی 8.63 جی ڈبلیو کے دو گنا سے بھی زیادہ ہے، اور تمام تر 2021 میں منظور کی جانے والی 18.55 جی ڈبلیو سے زیادہ ہے۔

گزشتہ برس چین نے اپنے بجلی کے 60 فیصد کے قریب کے لیے کوئلہ پر انحصار کیا۔

گرین پیس مہم ساز ژی وین وین نے کہا کہ کوئلہ کے مزید پلانٹس کے لیے دباؤ "ماحولیاتی تباہی ۔۔۔ اور ہمیں کاربن سے بھرپور راستے میں قید کرنے کا خدشہ پیدا کرتا ہے۔"

"2022 میں کوئلہ کے استعمال کی بلند سطح واضح طور پر رواں برس بھی جاری ہے۔"

فروری میں گلوبل انرجی مانیٹر (جی ای ایم) کی جانب سے جاری ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ چین نے گزشتہ برس 2015 سے اب تک کوئلہ سے چلنے والے پلانٹس کی سب سے بڑی توسیع کی منظوری دی۔

منحوس چکر

گرین پیس نے کہا کہ رواں برس جنوری تا مارچ کے عرصہ میں منظور ہونے والے کوئلہ کے نئے منصوبوں میں سے زیادہ تر ان صوبوں میں تھے جن میں گزشتہ دو برسوں میں گرمی کی ریکارڈ لہروں کی وجہ سے توانائی کی کرب ناک قلت کا سامنا ہوا۔

متعدد دیگر جنوب مغربی چین میں تھے، جہاں گزشتہ برس ریکارڈ خشک سالی نے پن بجلی کی پیداوار کو کم کر دیا اور کارخانوں کو مجبوراً بند کرنا پڑا۔

یہ امر غیر واضح تھا کہ رواں برس منظور ہونے والے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس میں سے کتنوں پر تعمیر کا آغاز ہو گا۔

گرین پیس کے تجزیہ کاروں نے تنبیہ کی کہ ایئرکنڈیشننگ میں اضافے کی تیاری کے لیے حجری ایندھن کے مزید پلانٹس میں سرمایہ کاری ایک منحوس چکر پیدا کر دے گی: کوئلہ سے چلنے والے پلانٹس سے گرین ہاؤس گیس کا زیادہ اخراج ماحولیاتی تبدیلی میں اضافہ کرے گا، جس کے نتیجہ میں گرمی کی لہروں جیسے سخت موسم زیادہ تواتر سے رونما ہوں گے۔

گرین پیس کے ژی نے کہا، "اب بھی چین کا توانائی کا شعبہ 2025 تک بلند ترین سطح پر جا سکتا ہے"، تاہم انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت کے اخراج کئی دہائیوں تک ماحول میں رہیں گے۔

چین دنیا میں قابلِ تجدید توانائی کا بھی سب سے بڑا اور تیزی سے بڑھتا ہوا تیار کنندہ ہے۔

تاہم گرین پیس نے کہا کہ کوئلے سے توانائی کے منصوبوں کے لیے منظوریاں ظاہر کرتی ہیں کہ کیسے قلیل المعیاد معاشی ترقی کی ضرورت گرڈ کی اضافی ہوا سے پیدا ہونے والی اور شمسی توانائی کی رسد ان علاقوں میں پہنچانے والی تجدید، جن میں اس کی ضرورت ہو، جیسے قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں سے سرمایہ کاری کو موڑ رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، اگر چین اخراج سے متعلق اپنے عزم کو پورا کرتا ہے تو اس کے کوئلے کے پلانٹ، جن کی زندگی کا اوسط دورانیہ 40 سے 50 برس ہے، کم ترین استعداد پر چلیں گے اور نقصان میں رہیں گے۔

چین کی برقی کاؤنسل نے کہا کہ ملک میں کوئلے سے چلنے والی توانائی کی بڑی کمپنیوں میں سے نصف سے زائد نے 2022 کی پہلی ششماہی میں نقصان اٹھائے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500